کورونا وائرس نے ساری دنیا کو جس عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے، اس عذاب سے بچنے کے لیے ہر متاثرہ ملک لاک ڈاؤن کا سہارا لے رہا ہے لیکن پاکستان جیسے انتہائی پسماندہ ملک کا اس حوالے سے مسئلہ یہ ہے کہ اگر لاک ڈاؤن کرتے ہیں تو لاکھوں لوگوں کا روزگار مارا جاتا ہے اور وہ فاقہ کشی کی ابتلا میں گھر جاتے ہیں اور اگر لاک ڈاؤن نہیں کرتے توکورونا کی تباہ کاریاں سامنے آجاتی ہیں۔
پاکستان کی حکومت نے رسک لے کر لاک ڈاؤن شروع کیا تو اس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں اور حکومت کے لیے ایک خطرناک مسئلہ پیدا ہو گیا ہے جس سے نکلنے کے لیے حکومت نے فی کس بارہ ہزار روپے امداد کے طور پر دینے کا اہتمام کیا ہے، لاکھوں لوگوں کو فی کس بارہ ہزار روپے دینے کا مطلب اربوں روپے ہوتا ہے حکومت نے دو مرتبہ لاکھوں بے روزگاروں کو فی کس بارہ ہزار روپے ادا کیے ہیں۔ اندازہ کیجیے کہ دو مرتبہ فی خاندان بارہ ہزار روپے کی ادائیگی کا مطلب کیا ہے لیکن بے روزگار عوام کو فاقہ کشی سے بچانے کا اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا اگرچہ بارہ ہزار کی امداد ناکافی امداد ہے۔
ترقی یافتہ ملک بھی لاک ڈاؤن کے عذاب سے گزر رہے ہیں لیکن بھاری رقم کا انتظام ترقی یافتہ ملکوں کے لیے اس قدر مشکل نہیں جس قدر مشکل پسماندہ ملکوں کے لیے ہو رہا ہے۔ بارہ ہزارکی ادائیگی، بے روزگاروں کو کرنے سے بے روزگاروں کا مسئلہ حل نہیں ہوا اور بہت ساروں تک نقد امداد بھی نہیں پہنچ سکی ہے۔ حکومت نے بدانتظامی سے بچنے کے لیے بہتر انتظامات کے ذریعے بارہ ہزار فی خاندان ادائیگی کی، جس کا مثبت نتیجہ یہ ہے کہ اس ادائیگی میں لوٹ مار کے الزامات عائد نہیں ہوئے، حالانکہ اپوزیشن کے لیے حکومت کو بدنام کرنے کا یہ ایک گولڈن چانس تھا جس کا فائدہ اپوزیشن نہیں اٹھا سکی۔
حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان کیا ہے بلکہ تاجروں کوکاروبار کی اجازت بھیض دے دی ہے، تاجر برادری لاک ڈاؤن سے بری طرح پریشان تھی۔ اب لاک ڈاؤن سے آزادی ملنے کے بعد اگر عوام نے احتیاط کا مظاہرہ نہ کیا توکورونا اس بد نظمی کا فائدہ اٹھا کر پھر ایسی تباہی پھیلا سکتا ہے کہ جس کا ازالہ شاید ممکن نہ ہو۔ پنجاب میں لاک ڈاؤن میں نرمی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے عوام نے ہر جگہ بھیڑ لگا دی اور لاک ڈاؤن کا تیا پانچا کرکے رکھ دیا۔
ڈسپلن ہر قوم کی زندگی کا ایک اہم فریضہ ہے لیکن ہماری اجتماعی بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ لوٹ مار میں مصروفیت کی وجہ عوام میں ڈسپلن پیدا نہیں کرسکا، جس کا نتیجہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔ کسی بھی قوم کے لیے ڈسپلن ایک لازمی ضرورت ہے اس کے بغیر قوم ایک ہجوم ایک بھیڑ توکہلا سکتی ہے وہ منظم قوم نہیں کہلاسکتی ہے۔ پچھلے دنوں مستقل یہ دیکھا گیا کہ لاک ڈاؤن کے دوران ہمارے نتائج سے لاپرواہ عوام نے لاک ڈاؤن کا وہ حشر کیا کہ توبہ ہی بھلی۔
لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی بہ ظاہر عوام کی کمزوری نظر آتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کمزوری کی اصل ذمے داری ہماری حکمران اور سیاسی اشرافیہ پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اشرافیہ نے کبھی سوچا بھی نہیں کہ ڈسپلن ترقی یافتہ قوم بننے کے لیے ہی ضروری نہیں بلکہ نارمل زندگی گزارنے کے لیے بھی ضروری ہے۔ غیر منظم اور ڈسپلن سے بے بہرہ قومیں اک بھیڑ تو کہلا سکتی ہیں ایک مہذب قوم نہیں کہلا سکتیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے عوام ہمیشہ جاگیردارانہ اخلاقیات کے تابع رہے ہیں اور جاگیردارانہ اخلاقیات میں صرف ایک قسم کا ڈسپلن رہتا ہے اور وہ ہے جاگیردار کے سامنے ہاتھ باندھے رہو۔
ہماری اشرافیہ ملک کی اسی فیصد دولت پر قبضہ جمائے بیٹھی ہے اور اس پر مزید ستم یہ کہ لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک معمولی سی بات پر نظر ڈالیں ملک میں لاک ڈاؤن کریں یا کرفیو نافذ کریں اشرافیہ کے معمولات میں کوئی فرق نہیں آتا جب کہ غریب طبقات جن کی تعداد 90 فیصد ہے رل جاتے ہیں۔ یہ طبقاتی نظام کا چارٹر آف یونیسف ہے۔ اس نظام سرمایہ داری کا یہ کیسا انصاف ہے کہ رات کے اندھیرے میں مزدوری یا ملازمت کے لیے گھر سے نکلنے اور رات کے اندھیرے میں ملازمت سے واپس آنے والا غریب طبقہ ہمیشہ بھوک کا شکار رہا ہے اور دن بھر آرام کرنے والا دو فیصد طبقہ اربوں روپوں کا مالک رہا ہے ظلم اور معاشی ناانصافی کا یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟
اس حوالے سے ایک افسوسناک بات یہ ہے کہ کورونا وائرس کے سبب موت کے منہ میں جانے والے 99 فیصد عوام کا تعلق غریب طبقے سے ہے، جو روٹی روزی کے لیے لاک ڈاؤن کی ضروری پابندیوں سے باہر آنے کے لیے مجبور ہوجاتے ہیں اور لاک ڈاؤن کی پابندیوں کو توڑنے کا مطلب جان کو خطرے میں ڈالنا ہوتا ہے۔ آج ملک کے 22 کروڑ عوام کے لیے ایک طرف قانون کا احترام ہے تو دوسری طرف بھوک ہے۔