Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Mazdoor, Kisan Agay Ayen

Mazdoor, Kisan Agay Ayen

جمہوریت کو اکثریت کی حکومت کہا جاتا ہے، لیکن اکثریت کی حکومت کہیں نظر نہیں آتی۔ ہمارے ملک کی آبادی 22 کروڑ ہے جس میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور ہیں، دیہی آبادی کا 60 فیصد حصہ کسان ہیں متفرق غریب طبقات سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد 8 کروڑ سے زیادہ ہے یوں غریب عوام کی مجموعی تعداد 20 کروڑ سے زیادہ ہے۔

22 کروڑ کی آبادی میں سے اگر 20 کروڑ کو نکال دیا جائے تو صرف 2 کروڑ بچتے ہیں جو مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔ اپر مڈل کلاس میں وہ 2 فیصد اشرافیہ ہے جو سیاست جمہوریت اور اقتدار پر 72 سال سے قابض ہے اور مڈل کلاس کی مدد سے حکومت کر رہی ہے۔ (اعداد و شمار قطعی نہیں ہیں )۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اکثریت کی حکومت کہاں ہے کب رہی ہے؟ اس سسٹم کو جائز بنانے کے لیے جمہوریت کو نیابتی جمہوریت کا نام دیا گیا ہے اس نیابتی جمہوریت میں وہ طبقاتی عناصر ہیں جن کا کام عوام کی دولت کی لوٹ مار ہے جس کا مظاہرہ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد کھلے عام دیکھا جا رہا ہے۔

جمہوری نظام نہ مزدوروں نے بنایا نہ کسانوں نے۔ جمہوری نظام بنانے والے اپنے کام سے اشرافیہ کے ایجنٹ ہی لگتے ہیں کیونکہ اس جمہوری نظام کا مطلب اشرافیہ کی حکومت کے علاوہ کیا ہوسکتا ہے۔ اشرافیہ اور اس کا ایجنٹ طبقہ ہر جگہ حکومت کر رہا ہے اکثریت محکوم ہے۔

ایک اعتراض یہ اٹھایا جاتا ہے کہ حکومت چلانے کے لیے جس اہلیت کی ضرورت ہوتی ہے وہ غریب طبقات میں نہیں ہوتی اشرافیائی دانشور جس اہلیت کی بات کرتے ہیں پہلے تو یہ اہلیت اشرافیہ میں بھی نہیں ہوتی جو سوائے جوڑ توڑ کے اگر کسی "اشرفی" میں مطلوبہ اہلیت ہوتی بھی ہے تو وہ اہلیت "اشرفی" ماں کے پیٹ سے لے کر نہیں آتا بلکہ اسے وہ وسائل حاصل ہوتے ہیں جن کے استعمال سے وہ علمی اور عملی اہلیت حاصل کرتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ساڑھے چھ کروڑ مزدوروں، دیہی آبادی کے 60 فیصد کسانوں اور متفرق غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ 8 کروڑ غریب عوام کو وہ سہولتیں حاصل ہیں جو انھیں علمی اور عملی اہلیت کی حامل بنا دیں۔

ایک منظم سازش کے ذریعے غریب طبقات میں یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ اللہ نے ان کو محکومی کے لیے پیدا کیا ہے وہ حاکم نہیں بن سکتے سو غریب طبقات حاکم بننے کے بارے میں کبھی سوچ سکتے ہیں نہ تصور کرسکتے ہیں۔ ادھر انھیں دو وقت کی روٹی کے لیے سارا دن محنت پر لگا دیا گیا ہے کہ وہ اس "کام" میں روٹی کے حصول کی تگ و دو میں اس قدر مصروف رہیں کہ سیاست کا اور حکومت کا خیال بھی ان کے ذہن میں نہ آسکے۔ یہ ہے وہ سازش جو اشرافیہ نے غریب طبقات کو ہمیشہ محکوم رکھنے کے لیے بنائی ہے۔

دنیا میں انقلاب فرانس، ماؤ کا لانگ مارچ اور 1917 کا انقلاب روس اصل میں اشرافیائی حکومتوں اور ان کے مظالم کے خلاف بغاوت تھے خواہ اس کی تاویلیں کچھ بھی کرتے رہیں سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا کو طبقات میں بانٹ دیا ہے اور ان طبقات کو جو دراصل سرمایہ دارانہ نظام کا عطیہ ہیں فطری قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

بچہ جب ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو اسے کچھ نہیں معلوم ہوتا کہ غربت کیا ہوتی ہے امارت کیا ہوتی ہے البتہ ماں کی غذا سے پیٹ میں پلنے والے بچے کی نشوونما پر اثر پڑتا ہے۔ عموماً امرا کے بچے تندرست و توانا ہوتے ہیں کیونکہ ان کی ماؤں کو بہترین خوراک ملتی ہے غریب طبقات کی مائیں روکھی سوکھی اور فاقوں میں حمل کا عرصہ گزارتی ہیں اس لیے ان کے بچے مدقوق، کمزور اور ناتواں پیدا ہوتے ہیں اس کے نفسیاتی اثرات بڑے گہرے اور دوررس ہوتے ہیں۔ غریب طبقات میں پل کر بڑھنے والے بچوں کے ذہن میں دو وقت کی روٹی کا تصور ہوتا ہے۔

اس کا ذہن محکومیت کے تصور سے باہر ہی نہیں آتا جب کہ امرا کی اولاد جیسے جیسے جوان ہوتی ہے ایک تو کھانے پینے کی چنتا سے آزاد ہوتی ہے اچھا ماحول اچھی غذا اس کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتی ہے پھر خوشگوار ماحول اسے آسمان پر اڑنے کی طرف مائل کرتا ہے۔

ہر قسم کی اشیائے صرف بنانے والا مزدور ہی ہوتا ہے جو معاشرے کی ضرورت ہی پوری نہیں کرتا بلکہ دوسرے ملکوں کو برآمد کرکے بھاری زرمبادلہ لاتا ہے ہر قسم کے اجناس کا پیدا کنندہ کسان ہوتا ہے اجناس بھی بڑے پیمانے پر برآمد کرکے بھاری زرمبادلہ کمایا جاتا ہے لیکن کیا مزدور اور کسان کو اس کی اس محنت کے تناسب سے معاوضہ دیا جاتا ہے۔

مزدور اور کسان کی محنت کا پھل اشرافیہ کھاتی ہے۔ مزدوروں اور کسانوں کے بعض بچے اپنی محنت اور لگن سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں اور کلرکی کے لیے جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں جب کہ اشرافیہ کی تعلیم یافتہ اولاد ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہوجاتی ہے کیا اسے ہم انصاف اور غیر جانبداری کہہ سکتے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ نیابتی جمہوریت کے نام پر اشرافیائی حکومتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑا ہے اور اگر اسے تبدیل کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو یہ سلسلہ نسلوں تک جاری رہے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ظالمانہ نامنصفانہ نظام میں تبدیلی کیسے لائی جائے؟ اس کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ نیابتی جمہوریت کے فراڈ اور مکارانہ سسٹم کو ختم کرکے مزدوروں کی قیادت کا انتخاب مزدوروں میں سے کیا جائے، کسانوں کی قیادت کا انتخاب کسانوں میں سے کیا جائے غریب طبقات کی قیادت کا انتخاب غریب طبقات میں سے کیا جائے۔ کیا یہ تجربہ کیا جاسکتا ہے؟