نچلے طبقات کو نفسیاتی طور پر اتنا کچل دیا گیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اشرافیہ کا غلام سمجھتے ہیں اور آگے بڑھنے اور آگے بڑھ کر اپنا مقام حاصل کرنے کی کوشش تو دورکی بات سوچتے تک نہیں کہ وہ بھی ایک انسان ہیں اور انھیں بھی باعزت طریقے سے زندگی گزارنے کا حق ہے۔
ہماری اشرافیہ سمجھ بوجھ کے ساتھ یہ سازش کرتی آ رہی ہے کہ غریب طبقات کو آگے نہ آنے دیا جائے۔ ان کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ ان کا کام اشرافیہ کی غلامی کے علاوہ کچھ نہیں اور بدقسمتی سے یہ بات غریب طبقات کے ذہن کی اتنی گہرائی میں اتر گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ملک کا ایک باعزت شہری سمجھتے ہی نہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اہل نوجوان بھی آگے بڑھ کر اپنا حق حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔
ہمارے مزدور اور کسان طبقات میں ایسے نوجوان بڑی تعداد میں موجود ہیں جو اپنی محنت اور کوششوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرچکے ہیں اور وہ اپنی اس اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کا حق رکھتے ہیں لیکن وہی نفسیات ان کے آڑے آتی ہے کہ اعلیٰ عہدے صرف اعلیٰ ذات کے لوگوں کا حق ہے۔ اس کے علاوہ ہماری اشرافیہ انھیں آگے آنے نہیں دیتی جس کے لیے نفسیاتی حربوں کے علاوہ بیوروکریٹک حربے استعمال کرتے ہیں، نتیجہ یہ ہے کہ مزدوروں اورکسانوں کی اعلیٰ تعلیم یافتہ اولاد کلرکی کے کولہو کے گرد ساری عمر گھومتی رہتی ہے۔
جلسوں، جلوسوں میں غریبوں کے لیے ہمدردی کا اظہار کرنے والی سیاسی اشرافیہ کسی اعلیٰ عہدے پر کسی مزدور، کسی کسان، کسی غریب کی تعلیم یافتہ اولاد کو دیکھنے کے لیے تیار نہیں چونکہ معاشرے اور سرکاری اداروں پر اشرافیہ کا تسلط ہے لہٰذا وہ 72 سالوں سے اپنی سازشوں میں کامیاب رہی ہے۔ اس حوالے سے بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے اہل علم، ہمارے اہل خرد اس طبقاتی ناانصافی کو ختم کرنے کے حوالے سے کوئی موثر کردار ادا کرتے نظر نہیں آتے، جس کا لازمی نتیجہ یہی نکل رہا ہے کہ مزدوروں، کسانوں اور غریب طبقات کی وہ بہادر اولاد جو ان کی راہ میں کھڑی کی ہوئی رکاوٹیں پار کرکے اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں، اپنی تعلیم کے مطابق جگہیں حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے۔
ہماری غذائی ضرورتیں کسان اور ہاری پوری کرتے ہیں ان کے لیے بارش سردی گرمی کے موسم ان کی راہ میں حائل نہیں ہوتے۔ سخت موسموں میں مناسب لباس کی عدم دستیابی کی وجہ اپنی صحت کو داؤ پر لگا کر رات دن محنت کرکے غلہ اگانے اور غذائی ضرورت کی دوسری اشیا پیدا کرنے والوں کی زندگی کس حال میں گزرتی ہے اگر اس کا مشاہدہ کرنا ہو تو جائیں مزدوروں کی بستیوں میں، جائیں کسانوں کی بستیوں میں، جائیں غریب طبقات کی بستیوں میں۔ ان کے سامنے ایسے شرمناک حقائق ہوں گے جنھیں دیکھ کر ایک انسان شرم سے زمین میں گڑھ جائے گا۔
پچاس پچاس لاکھ کی لگژری گاڑیوں میں گھومنے والی اشرافیہ کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے کہ اپنی محنت سے انھیں لگژری گاڑیاں مہیا کرنے والے غریب بسوں، منی بسوں کی چھتوں پر بیٹھ کر دروازوں اور کھڑکیوں سے لٹک کر کس قدر خطرناک سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ جمہوریت اور غریبوں کے حامی حکمرانوں سے یہ تک نہ ہو سکا کہ غریبوں کو سفر کے لیے اتنی بسیں منی بسیں ہی فراہم کردیں کہ غریب مسافروں کو جان کا خطرہ مول لے کر بسوں کی چھتوں دروازوں، کھڑکیوں میں لٹک کر جان جوکھوں والا سفر نہ کرسکیں۔
آٹا غریب طبقات کی بنیادی غذا ہے، بدقسمتی سے آٹا پہلے ہی پچاس ساٹھ روپے کلو فروخت ہو رہا تھا کہ اسے سیاسی سازشوں کے ذریعے 70 روپے کلو تک پہنچا دیا گیا۔ کیا آٹا مہنگا کرنے والوں کے خلاف کوئی سخت کارروائی کی گئی، جو احتسابی طاقتیں اربوں کی کرپشن کرنے والوں کا کچھ بھی نہ کرسکیں وہ بھلا غریبوں کی بنیادی غذا آٹے کی قیمت میں ہوش ربا اضافے کے خلاف کیا کرسکتی ہیں۔ رونا یہ ہے کہ جس حکومت کو بڑی امیدوں بڑی آرزوؤں کے ساتھ برسر اقتدار لایا گیا تھا کہ 72 سال بعد برسر اقتدار آنے والی مڈل کلاسر حکومت انھیں ریلیف فراہم کرے گی وہ ریلیف فراہم کرنے کے بجائے آپس میں لڑ رہی ہے۔
یہ ظلم اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک عوام اپنے حقوق سے ناواقف رہیں گے۔ میڈیا میں یہ خبریں آتی رہتی ہیں کہ اعلیٰ تعلیم کی ڈگریاں مارکیٹ میں فروخت ہو رہی ہیں اور سفارشوں کے ذریعے نااہلوں اور جاہلوں کو ماسٹر کی ڈگریاں دلوائی جا رہی ہیں اور ان جعلی اور خریدی ہوئی ڈگریوں پر اشرافیہ کی اولاد اعلیٰ سول عہدوں تک پہنچ جاتی ہے اور محنت اور جانفشانی کے ساتھ تعلیم حاصل کرکے اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں حاصل کرنے والے غریب کسان اور مزدوروں کی اولاد کلرکی کے لیے جوتیاں چٹخاتی پھر رہی ہے۔
یہ ہے پاکستانی معاشرے کی المناک کہانی۔ ہماری مڈل کلاس حکومت کے نوشہ عمران خان نیا پاکستان بنانے جا رہے ہیں، کیا یہی نیا پاکستان ہے؟ جہاں غریب کی اولاد، کسان اور مزدور کی اولاد انتہائی جانفشانی اور محنت سے تعلیم، اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے چپراسی کی نوکری کے لیے جوتے گھسیٹ رہی ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے میں اشرافیہ نے لکیریں لگا دی ہیں کہ سرمایہ دار کی اولاد، جاگیردار کی اولاد بیوروکریٹس کی اولاد کی رسائی کن کن اعلیٰ عہدوں تک ہو سکتی ہے اور غریب مزدور اورکسان کی اعلیٰ تعلیم یافتہ اولاد کی ترقی کی حد کیا ہے؟ ایسی المناک صورتحال میں اگر غریب عوام مزدوروں اور کسانوں کی اعلیٰ تعلیم یافتہ اولاد کو خصوصی حیثیت دے کر انھیں آگے نہ لایا گیا تو یہ غریب کی اولاد کی روڈ کلرکی سے آگے تک نہیں جا سکے گی۔ امید ہے کہ عمران خان وزیر اعظم پاکستان اس ناانصافی کا موثر ازالہ کرکے غریب لیکن اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ان کا حق دلائیں گے۔