آج کی دنیا میں میڈیا خواہ وہ الیکٹرانک ہو یا پرنٹ ایک ایسی بڑی طاقت بن گیا ہے کہ بڑے بڑے حکمران بھی اپنی خیریت اسی میں دیکھتے ہیں کہ میڈیا سے پنگا نہ لیں بلکہ جتنا ہوسکے، میڈیا سے دوستی بنا کر رکھیں۔
میڈیا کا اصل موضوع سیاست ہے دنیا میں ایسے بڑے بڑے اور طاقتور میڈیا ہاؤس ہیں جن سے طرم خان سیاستدان بھی خوفزدہ رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رائے عامہ کی تشکیل میں میڈیا کا بہت بڑا اور اہم کردار ہوتا ہے، مغربی ملکوں میں اسے ریاست کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے اور بڑے اور معروف میڈیا ہاؤسز کے مالکان طاقتور ہوتے ہیں۔ میڈیا کی طاقت کا اندازہ لگانا مشکل ہے جیساکہ ہم نے نشان دہی کی ہے میڈیا ریاست کا چوتھا ستون بن گیا ہے۔
بامقصد اور عوام دوست میڈیا کی ذمے داری یہ ہوتی ہے کہ وہ ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھائے۔ میڈیا بلاشبہ ایک بہت بڑی طاقت ہے لیکن عوام ہر ملک کی سب سے بڑی طاقت ہیں۔ سمجھدار حکمران ہر حال میں ہر قیمت پر میڈیا سے دوستی کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ حکمران طبقات میں ایک محکمہ ہوتا ہے اس کا سب سے بڑا کام میڈیا سے حکمرانوں اور حکومتوں کے تعلقات بہتر بنانا ہوتا ہے چونکہ ہم ایک کرپٹ معاشرے یا معاشروں میں رہتے ہیں لہٰذا میڈیا بھی کرپشن کا شکار رہتا ہے۔
میڈیا دراصل عوام کا ترجمان ہوتا ہے عوامی مسائل اور عوام کی خواہشات کو منظر عام پر لانا میڈیا کی قومی اور پیشہ ورانہ ذمے داری ہے یہ میڈیا ہی ہے جو عوامی مسائل کو حکومتوں تک پہنچاتا ہے اور حکومتوں کو عوامی مسائل حل کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
ترقی یافتہ ملکوں میں پرنٹ میڈیا کا ایک ایڈیشن کئی صفحات پر مشتمل ہوتا ہے جو دنیا بھر کے مسائل کو اجاگر کرتا ہے یہ میڈیا کا مثبت کردار ہے۔ میڈیا کا ایک اہم اور مقبول حصہ "کالم" ہوتا ہے ہر اخبار میں کالم شایع ہوتے ہیں جو عوامی مسائل پر لکھے جاتے ہیں اور ریڈرز میں مقبول ہوتے ہیں اخباری کالم بھی بنیادی طور پر عوامی مسائل ہی پر لکھے جاتے ہیں اور حکومتوں کا انفارمیشن ڈپارٹمنٹ اہم خبروں کی کٹنگ محکمے کے سربراہ کو ہر روز صبح پہنچاتا ہے اور متعلقہ افسر ان کٹنگ کو متعلقہ محکمے کے افسر تک پہنچاتا ہے جس پر ایکشن لیا جاتا ہے یہ سلسلہ ہر اخبارکی بنیادی ذمے داری ہوتا ہے۔
حکومتیں کٹنگز کو ان محکموں تک پہنچا دیتی ہیں جن کے بارے میں خبریں چھپتی ہیں یوں عوامی مسائل کو حکمرانوں کے علم میں لانے اور ان کے حل تلاش کرنے کا ایک مربوط سلسلہ ہوتا ہے جن پر عمل کرکے حکومتیں عوامی مسائل حل کرنے کی کوششیں کرتی ہیں۔
ہر اخبارکی ایک پالیسی ہوتی ہے اور اخبار اس پالیسی پر عملدرآمد کرتے ہیں۔ کچھ اخبارات پروگورنمنٹ ہوتے ہیں جو ہر خبر کو اس زاویے سے شایع کرتے ہیں کہ وہ حکومت کے حمایتی بن جاتے ہیں۔ کچھ اخبارات اینٹی گورنمنٹ ہوتے ہیں وہ میٹر کو اس طرح تیار کرتے ہیں کہ وہ حکومت مخالف کا تاثر دیتے ہیں کچھ اخباروں کی پالیسی بین بین ہوتی ہے وہ نہ کسی میٹرکو پرو حکومت کا ٹھپہ لگنے دیتے ہیں نہ کسی کو اینٹی گورنمنٹ کا، یہ آزادی اظہار رائے کے زمرے میں آتے ہیں۔ میڈیا میں ایسے اخبارات بھی ہوتے ہیں جو نہ پرو گورنمنٹ ہوتے ہیں نہ اینٹی گورنمنٹ۔ جس کا ذکر ہم نے کردیا ہے ایسے اخبارات اپنی پالیسیوں میں غیر جانبدار ہوتے ہیں انھیں بھی عوام کی ایک بڑی تعداد پسند کرتی ہے۔
اب ذرا سیاسی پارٹیوں کی طرف آئیں۔ سیاسی پارٹیوں میں بھی دائیں بازو اور بائیں بازو کی تفریق ہوتی ہے دائیں بازوکے حوالے سے یہ تصور عام ہے کہ یہ جماعتیں رجعت پسند ہوتی ہیں خود بھی ماضی کا دامن تھامے رہتی ہیں اور عوام کو بھی ماضی پرست بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ پسماندہ ملکوں میں ماضی پرستی کو بھی بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ میڈیا بھی اس حوالے سے بٹا ہوا ہے میڈیا کا کچھ حصہ ماضی پرست ہے کچھ ماڈرن۔
تقریباً ہر ملک میں سیاست میڈیا کا مرکزی موضوع ہوتا ہے سیاستدان عوام تک اپنی پالیسیاں پہنچانے کے لیے میڈیا کا سہارا ہی لیتے ہیں اخباری بیانات، پریس ریلیز، پریس کانفرنسیں وہ ذرایع ہیں جنھیں اہل سیاست استعمال کرتے ہیں۔ ہمارا ملک ایک پسماندہ ملک ہے جہاں ہمارا میڈیا آگے بڑھنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے میڈیا بھی بڑی حد تک نہ سہی کسی حد تک تقسیم کا شکار ہے یعنی دائیں اور بائیں بازو میں بٹا ہوا ہے اور اپنے خیال کے مطابق وہ اپنی پالیسیاں بناتا ہے، اس تفریق میں عوام بھی کسی نہ کسی طرح شامل رہتے ہیں۔ لبرل پالیسی والا میڈیا عوام میں زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔
پسماندگی کا عالم یہ ہے کہ ابھی تک ہمارے دیہی علاقے وڈیرہ شاہی اور جاگیردارانہ نظام میں پھنسے ہوئے ہیں شرح تعلیم شرم ناک حد تک کم ہے عوام ذہنی پسماندگی کا شکار ہیں، سائنس اور ٹیکنالوجی ہمارے لیے نہ ہونے کے برابر ہے۔ 80 فیصد دولت 2 فیصد اشرافیہ کے ہاتھوں میں جمع ہے عام آدمی دو وقت کی روٹی سے محتاج ہے ایسی صورتحال میں میڈیا کا فرض ہے کہ وہ تعلیم کو عام کرنے، سائنس اور ٹیکنالوجی کو ترقی دینے اور طبقاتی نظام کی لعنتوں سے عوام کو بچانے اور ارتکاز دولت کی ہر شکل کو ڈسکریج کرکے ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کی کوشش کرے۔