دنیا میں بے شمار جمہوری ملک ہیں لیکن ہمارا ملک ان تمام ملکوں سے مختلف ہے۔ دنیا کے جمہوری ملکوں میں الیکشن جیتنے والی جماعتوں کو حکومت سازی کا موقعہ ملتا ہے اور حکومت بنانے والی جماعت اپنی آئینی مدت پوری کرتی ہے لیکن ہماری جمہوریت میں اپوزیشن طے کرتی ہے کہ الیکشن جیت کر آنے والی جماعت کو کتنا عرصہ حکومت کرنا چاہیے۔
انتخابات کو اب تقریبا تین سال کا عرصہ ہو رہا ہے ابھی اقتدار ختم ہونے میں دو سال باقی ہیں لیکن ہماری اپوزیشن پچھلے دو سال سے یہی مطالبہ کر رہی ہے کہ حکومت الیکشن کرائے یا حکومت چھوڑ دے۔ یہ مطالبہ کس قدر جمہوری ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔
اس طریقہ کار کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک پر ستر سال سے بلاؤں کا سایہ ہے، جنھیں ہم عرف عام میں ایلیٹ کہتے ہیں۔ یہ بلائیں عوام سے اس طرح چمٹی ہوئی ہیں کہ ان کا پیچھا چھوڑنے کا نام ہی نہیں لیتیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ سارا نظام ایلیٹ کی مرضی کے تابع ہو گیا ہے اور عوام بے چارے رل رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم ابھی بادشاہوں، راجوں، مہاراجوں کے دور سے گزر رہے ہیں یا کسی جمہوری دور سے گزر رہے ہیں۔ چچا، بھتیجے، باپ، بیٹے اور بیٹیاں سیاست پر قابض ہیں، کسی کی مجال نہیں کہ کوئی مائی کا لعل ان شہزادوں، شہزادیوں، شاہوں، شہنشاہوں کی طرف جی بھر کے دیکھ لے۔ ہر با اثر اور مالدار سیاستدان اپنے قبضے میں ہزار دو ہزار غنڈوں کی فوج رکھتا ہے اگر کوئی ان کی مرضی کے خلاف کوئی حرکت کرتا ہے تو اس کا ایسا حال کر دیا جاتا ہے کہ نانی یاد آجاتی ہے۔ اس قسم کے نالائق سیاستدانوں نے ملک کا بیڑا غرق کر رکھا ہے۔
ہماری اشرافیہ کو صرف اقتدار سے غرض ہے، اقتدار کیسے حاصل کیا جاتا ہے اس کی اہمیت ہے کہ اقتدار اشرافیہ کے ہاتھوں میں ہے یا نہیں۔ اقتدار اشرافیہ کے ہاتھوں میں ہے تو ملک میں جمہوریت مضبوط ہے اگر اقتدار اشرافیہ کے ہاتھوں میں نہیں ہے تو ملک میں آمریت ہے۔
اب بہ ظاہر حکومت کے چل چلاؤ کا وقت آگیا ہے کیونکہ شنید ہے کہ اپوزیشن نے بڑوں سے مک مکا کر لیا ہے اور جب کسی سیاسی جماعت کا بڑوں سے مک مکا ہو جاتا ہے تو ڈیپارچر کی گھنٹی بج جاتی ہے، اگر ایسا ہی ہو رہا ہے تو یہ بڑی خوشی اور فخر کی بات ہے کہ ہم اپنی روایات پر سختی سے کاربند ہیں۔ ویسے بھی حکومت میں بہت ساری خرابیاں ہیں لیکن ایک خرابی ایسی ہے جو عوام میں بے چینی پھیلا رہی ہے اور وہ ہے مہنگائی۔ اس مہنگائی نے حکومت کو END کی طرف دھکیل دیا ہے۔
دوسری طرف وزیراعظم عمران خان کا حال یہ ہے کہ ہر روز کسی نہ کسی پروجیکٹ کا افتتاح کر رہے ہیں۔ ان کو افتتاح کرتا دیکھ کر اپوزیشن بجا طور پر سوچ رہی ہے کہ عمران خان کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وقت دعا کے وقت دوا کر رہے ہیں۔ ہماری اپوزیشن ایک ٹانگ پر کھڑی ہے کہ کب جگہ خالی ہو، کب کرسی آگے آئے اور اقتدار میں آجائے۔ اس پورے ماحول میں ایک بات کی کمی محسوس ہو رہی ہے، وہ ہے بلاول بھٹو زرداری کی۔ پی پی پی کے کارکن نعرے لگاتے تھے ایک زرداری سب پہ بھاری۔ اب اس نعرے کی گونج سنائی نہیں دیتی، نہ آواز بازگشت ہی سنائی دیتی ہے۔
پاکستانی سیاست کا یہ کھیل منفرد اس لیے ہے کہ پاکستانی سیاست کے کھیل میں سیاست عوام کے گرد نہیں، ایلیٹ کے گرد گھومتی ہے۔ آج آپ پورے پاکستان پر نظر ڈالیں عوام کہیں نظر نہیں آتے۔ ہماری ایلیٹ مڈل کلاس کو بڑی حقارت سے دیکھتی ہے۔ عمران خان کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپوزیشن کی حقارت کا جواب اس سے بڑی حقارت سے دیتا ہے۔ آخر بندہ ہے نا کرکٹ کا۔ کرکٹ کے بندے اس حوالے سے بڑے نک چڑے ہوتے ہیں کسی کی پرواہ نہیں کرتے۔ وزیراعظم عمران خان کا سب سے بڑا قصور مہنگائی ہے جس مہنگائی میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں بلکہ کاروباری طبقے کا ہاتھ ہے جو بھی ہو بات یہ لگ رہی ہے کہ ایلیٹ نے اپنے حریفوں کو پسپا کرکے اپنی راہ ہموارکر لی ہے۔