اس بار اگر کوئی ایک تبدیلی آئی ہے تو وہ ہے حکومت سے اشرافیہ کی بے دخلی۔ بلاشبہ یہ ایک مثبت اور دور رس کارنامہ ہے لیکن حالات کے مشاہدے سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت عوام کی زندگی اور ان کے معیار زندگی میں شاید کوئی بڑی تبدیلی نہ لا سکے۔
عمران خان کی یہ کمزوری ہے یا بدقسمتی کہ انھیں ایک اچھی ٹیم نہ مل سکی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اچھے لوگ ہماری جمہوری خرابے سے دور بھاگتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ٹیم کے انتخاب میں ذمے داری کا مظاہرہ نہیں کیا گیا، اگر مخلص اور کارکردگی کے حوالے سے ایک معیاری اور فعال ٹیم منتخب کی جاتی تو حالات نسبتاً بہتر ہوتے چونکہ اس ٹیم کو حکمرانی اور رمز حکمرانی کا کوئی تجربہ نہیں ہے لہٰذا وہ کچھ زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پا رہی ہے۔
پاکستان کی یہ بدقسمتی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے آج تک اشرافیہ چہرے بدل بدل کر حکومت میں آ رہی ہے اور ہوشیاری یہ کی ہے کہ جمہوریت میں خاندانی نظام رائج کر دیا ہے اور ولی عہدوں کی ایک لائن لگا دی ہے جو بیسویں صدی حکمرانی کرتے گزار دے گی، اس خطرناک رجحان یا سازش پر ان جمہوریت پسندوں کی نظر نہیں جا رہی ہے، جو صبح سے شام تک جمہوریت کا وظیفہ پڑھتے رہتے ہیں نہ اس خطرناک سازش پر ہمارے دانشوروں نے کوئی نوٹس لیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ اشرافیہ اپنی آل اولاد ہی نہیں بیٹی دامادوں کو بھی حکمرانی میں حصے دار بنا کر جمہوریت کو بدنام کر رہے ہیں۔
اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہماری جمہوریت میں جمہور کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں۔ بھارت ہمارا پڑوسی اور جمہوری ملک ہے۔ بھارتی جمہوریت میں بھارتی حکمرانی میں ہزار خامیاں ہو سکتی ہیں لیکن بھارتی جمہوریت میں جمہور نہ صرف بھرپور طریقے سے موجود ہے بلکہ حکومتوں کا بڑا حصہ بنا ہوا ہے حتیٰ کہ بھارت کی نچلی ترین کلاس سے تعلق رکھنے والے ملک کے وزیر اعظم رہے ہیں اور اب بھی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں حکمران طبقے میں غریب طبقے کے لوگ کیوں نہیں ہوتے، 72 سالوں میں کیا کسی حکومت میں غریب طبقے مزدور کسان کسی حکومت میں شامل رہے ہیں؟
اشرافیہ کے علاوہ حکومتوں میں کسی طبقے کا کوئی فرد وزیر سفیر نہیں رہا۔ پھر وہ جمہوریت کے عاشقین اس بالا دست طبقے کی حکومتوں کو جمہوری حکومتیں کہہ کر اس کی تعریف اور دفاع میں اپنا سارا زور کیوں لگا دیتے ہیں؟ جمہوری ملکوں میں سیاسی پارٹیوں میں غریب لیکن باصلاحیت لوگ اونچے عہدوں پر کیوں رہتے ہیں اور انتخابات میں انھیں نامزد کیوں کیا جاتا ہے۔ یہ ایسے سوال ہیں جن کا جواب اشرافیائی جمہوریت کے حامیوں کو دینا چاہیے۔ کیا اشرافیائی جمہوریت کے حامیوں کو اندازہ ہے کہ اہل علم کی حمایت سے اشرافیہ کو کتنی طاقت ملتی ہے؟
پاکستان کے 22 کروڑ عوام کو جس فریب میں رکھا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ جمہوریت کا مطلب جاگیرداروں، صنعتکاروں ان کی آل اولاد کو ہر پانچ سال بعد اپنے ووٹ دے کر پانچ سال کے لیے اقتدار ان کے حوالے کرنا ہے اور وہ اقتدار میں آ کر عوام کے خون پسینے کی دولت لوٹتے رہیں، لوٹ مار بھی چھوٹی موٹی نہیں اربوں روپے کی مغربی ملکوں لندن، نیویارک، دبئی میں اربوں مالیت کے فلیٹ خریدنا۔ یہ ہے کہ وہ جمہوریت جس کی تعریف میں ہمارا دانشور زمین آسمان ایک کر رہا ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے میڈیا کے ایجنٹ اشرافیہ کی سیاسی جماعتوں کی آنکھ بند کر کے سپورٹ کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ اشرافیہ مضبوط ہوتی ہے۔
جب تک سیاسی جماعتوں میں مڈل کلاس کے ایجنٹ بیٹھے ہیں، اشرافیہ مطمئن ہے کہ ان کا اقتدار مضبوط ہے کیونکہ یہ رات دن "اشرافیہ کے کارہائے نمایاں " کے گن گاتے رہتے ہیں، جب سے احتساب کا ادھورا اور بے معنی عمل شروع ہوا ہے، مڈل کلاس کے ایجنٹ پوری تندہی سے اشرافیہ کے جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سادہ دل عوام بڑی حد تک اس پروپیگنڈے سے متاثر ہوئے ہیں۔ لیکن پہلی بار حکومت نے جو احتساب شروع کیا ہے، وہ ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے، لوٹ مار کے اربوں روپے غیر ملکی بینکوں وغیرہ میں جا چکے ہیں۔
جیسا کہ ہم نے نشان دہی کی ہے، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ عام آدمی مزدور، کسان، طلبا، وکلا اور ڈاکٹرز کو سیاسی جماعتوں میں لایا جائے، ان کی تربیت کر کے انھیں عوامی رابطے کی مہم پر لگایا جائے، ہر علاقے میں تنظیمی دفاتر کھولے جائیں، یہ کام بلدیاتی اداروں کی طرز پر کیا جا سکتا ہے، بلدیاتی ادارے رسم ادائی کرتے ہیں جس کی وجہ عوام اور بلدیاتی اداروں کے درمیان ایک خلا پیدا ہو گیا ہے، اس خلا کو پاٹنے کی ضرورت ہے۔
ملک کی دوسری اشرافیائی جماعتوں کی یہ ضرورت نہیں ہے، یہ کام تحریک انصاف کر سکتی ہے، ہر یونین لیول پر ایک رابطہ آفس کھولا جائے جو چوبیس گھنٹے عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرے۔ یہ کام نئی ممبر سازی کے بعد سلیقے سے کیا جا سکتا ہے۔
جب غریب عوام مزدوروں کسانوں کو پارٹی کا ممبر بنا کر انھیں عوامی رابطے کی ذمے داری سونپی جائے گی تو کارکنوں کو عوامی مسائل سے آگہی بھی ہوتی جائے گی اور انھیں حل کرنے کے مواقع بھی حاصل ہوتے رہیں گے۔ اس طرح کارکنوں کو عوام کی قربت اور اعتماد حاصل ہو گا مہنگائی سے عوام سخت پریشان ہیں مصنوعی مہنگائی جو چھوٹے تاجر پیدا کرتے ہیں، پارٹی کارکن اس کے خلاف عوام کے تعاون سے مہم چلا سکتے ہیں، یہ کام کریں تو پارٹی کا عوام سے رابطہ ہو گا اور عوام کے مسائل بھی حل ہوتے رہیں گے۔