بھارت میں عدلیہ کے نظام کو حکومتی دباؤ سے آزاد کہا جاتا ہے۔ کیا واقعی بھارتی عدلیہ حکومتی دباؤ اور حکومتی پالیسیوں سے آزاد ہے؟ اس سوال کا جواب کشمیر کی 71 سالہ تاریخ کے تناظر ہی میں لیا جا سکتا ہے۔
1947ء میں جب ہندوستان اور پاکستان آزاد ہوئے تو بھارتی ریاستوں کے حوالے سے یہ کہا گیا کہ وہ ہندوستان یا پاکستان دونوں میں سے کسی کے ساتھ الحاق کر سکتے ہیں۔ اس آزادی کا فائدہ ہندوستان نے زیادہ اٹھایا، کشمیر میں راجہ ہری سنگھ کی حکومت تھی، راجہ ہری سنگھ کا تعلق کیونکہ ہندو مذہب سے تھا لہٰذا ہری سنگھ نے بھارت میں شمولیت کے معاہدے پر دستخط کر دیے یوں کشمیر بھارت کا ایک حصہ بن گیا۔
اس کے برخلاف وہ ریاستیں جن کے سربراہ مسلمان تھے انھوں نے پاکستان میں شامل ہونے کی ہامی بھری تھی، اسے بھارت نے تسلیم نہیں کیا ان ریاستوں میں حیدرآباد دکن اور جوناگڑھ شامل تھیں۔
پاکستان یا ہندوستان میں ریاستوں کا الحاق دباؤکی نظر ہو گیا۔ کشمیر کے حوالے سے یہ ہوا کہ آزاد قبائل نے کشمیر کے جتنے حصے پر قبضہ کر لیا وہ پاکستان کے ساتھ ملحق ہو گیا اور بھارتی فوج نے کشمیرکے جتنے حصے پر قبضہ کر لیا وہ بھارتی کشمیر کہلایا۔ کشمیر کا مسئلہ یا ہندوستان یا پاکستان میں اس کی شمولیت رضاکارانہ اور کسی اصول کے تحت نہیں تھی بلکہ یہ طاقت کا کھیل تھا۔ جموں کشمیر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔
1947 میں تقسیم کے موقع پر طاقت کا توازن بھارت کے حق میں تھا لہٰذا اس نے کشمیر کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا اور پاکستان ایک چھوٹے سے حصے پر قابض ہوا۔ یہ حصہ آزاد کشمیر کہلایا اور اس کا تعلق پاکستان سے ہو گیا۔ بھارت نے اس تنازع کو سلامتی کونسل میں اٹھایا، سلامتی کونسل نے فیصلہ کیا کہ کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی آزادانہ رائے شماری کے ذریعے حل کیا جائے لیکن بھارت نے اقوام متحدہ کے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ یوں یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں لٹکا رہ گیا۔
کشمیر کے مسئلے پر دونوں ملکوں کے درمیان تین جنگیں لڑی گئیں لیکن کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہو سکا۔ بھارت نے اپنے آئین میں کشمیر کو ایک خصوصی حیثیت دے رکھی تھی جو 35A اور 370آرٹیکل کے تحت ایک متنازعہ حیثیت کی مالک تھی۔
بھارت نے اس خصوصی حیثیت کو 2019 میں ختم کر کے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنا لیا۔ یہ تھی مختصر سی داستان کشمیر کی۔ اس داستان میں بھارت کی اپنی طاقت کے ذریعے کشمیر پر قبضہ کرنے کی روایت سامنے آتی ہے۔ اقوام متحدہ نے کشمیرکے حوالے سے جو قرارداد منظورکی تھی اسے بھارت نے طاق نسیاں پر رکھ دیا۔ اس طرح اقوام متحدہ کا منہ کالا ہو گیا اور قانون اور انصاف طاقت کے آگے سرنگوں ہو گئے۔ آج بھارت کرفیو کے ذریعے کشمیر پر حکومت کر رہا ہے کرفیو کو اب دو ماہ ہو رہے ہیں پورا مقبوضہ کشمیر جیل خانہ بنا ہوا ہے۔
جدید دنیا میں عوام کو متنازعہ مسائل کے حل میں فیصلہ کن طاقت مانا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی کشمیر کے حوالے سے پاس کی گئی قراردادوں میں عوام کی حیثیت کا تعین کر دیا گیا ہے کہ وہ کشمیرکے متنازعہ مسئلے کا حل آزادانہ استصواب رائے سے کریں گے۔ اگر بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل پر تیار ہوتا ہے تو یہ علاقہ امن کا گہوارا بن سکتا ہے اور اگر بھارت طاقت کی بالادستی کے اصول پر چلتا ہے تو یہ علاقہ کشیدگی کا مرکز بنا رہے گا اور اس کا نتیجہ جنگ تک آ سکتا ہے دونوں ملک ایٹمی طاقتیں ہیں خدانخواستہ جنگ ہوئی تو اس کا انجام کیا ہو سکتا ہے اس کا اندازہ مشکل نہیں۔
ماضی میں جنگیں زمین کے حصول اور قبضے کے لیے لڑی جاتی تھیں ان روایتوں کو آج کی دنیا نے مسترد کر کے اسے جیل سے تعبیر کیا ہے۔ بلاشبہ کشمیر کا بڑا حصہ بھارت کے پاس ہے۔ لیکن کشمیری عوام بھارت کے ساتھ نہیں یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس سے بھارت انکار نہیں کر سکتا۔ ماضی میں حکمران زمین حاصل کرنے کے لیے جنگیں لڑتے تھے جسے آج کی دنیا کے جدید انسان نے جہل سے تعبیرکیا ہے۔ کیا بھارت اپنی پیشانی پر جہل کا داغ سجا لے گا؟ ہندوستان اور پاکستان دونوں ہی پسماندہ ملک ہیں اور ان ملکوں کی پسماندگی دور کرنے کے لیے امن اور آشتی کی فضا چاہیے۔
کیا کشمیر کے مسئلے کی موجودگی میں امن اور آشتی کی فضا قائم ہو سکتی ہے؟ اس سوال کا جواب نفی میں آتا ہے اور یہ نفی عوام کی ترقی اور خوشحالی کی نفی میں بدل جاتی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کشمیرکی خصوصی حیثیت کا تعین کرنے والی آئینی شقوں کو منسوخ کر کے برصغیر کو نفرتوں کی جن وادیوں میں دھکیل دیا ہے اس جرم کو تاریخ کبھی نہیں بخشے گی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نریندر مودی نے کشمیرکو بھارت کا اٹوٹ انگ بنانے کے لیے جو راستہ اختیار کیا ہے کیا یہ راستہ برصغیر کے ایک ارب کے لگ بھگ انسانوں میں محبت اور رواداری پیدا کر سکتا ہے؟ اس کا جواب نفی میں آتا ہے اور یہ نفی عملاً برصغیرکے پر امن مستقبل کی نفی ہے۔ کیا مودی تاریخ کی اس پھٹکار کا سامنا کر سکے گا؟
بھارتی زعما کے سامنے دو سوال ہیں ایک یہ کہ مسئلہ کشمیر پر امن طریقے سے حل کر کے تاریخ میں اپنا نام عوام دوست کی حیثیت سے لکھوائیں گے یا عوام دشمن، انسانیت دشمن کی حیثیت سے لکھوائیں گے۔ وقت کا دھارا تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے اس کے راستے میں کئی نریندر مودی آتے رہیں گے لیکن ایک مودی وہ ہو گا جو حقیقت کا ساتھ دے کر سربلند ہو گا۔ ایک مودی وہ ہو گا جو حقیقت کو جھٹلا کر ذلت و رسوائی کے داغ اپنی پیشانی پر سجا کر ایک کروڑ عوام کی مسلسل پھٹکار پر زندہ رہے گا۔