Friday, 08 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Modi Jee Hosh Ke Nakhun Lein

Modi Jee Hosh Ke Nakhun Lein

ہم جس کرہ ارض پر رہتے ہیں اس پر 7 ارب انسان رہتے ہیں جن میں عیسائی، ہندو، مسلمان سب شامل ہیں لیکن یہ7ارب انسان مختلف حوالوں سے بٹے ہوئے ہیں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، بدھ اور پارسی وغیرہ۔ یہ 7 ارب انسان پہلے انسان ہیں بعد میں ان کی اضافتیں ہیں جو انھیں انسان کے ساتھ ساتھ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، پارسی، بدھ، وغیرہ میں تقسیم کر دیتی ہیں۔ اگر انسان کو اس کی پہچان کے لیے ان حوالوں سے بانٹ دیا جاتا ہے تو کوئی تشویش کی بات نہیں لیکن اس بٹوارے کے ساتھ نفرت اور دشمنیاں بھی آتی ہیں تو یہ بٹوارا خونی بٹوارا ہو جاتا ہے۔

1947 میں آزادی کے موقع پر ہندو اور مسلمان کا بٹوارا ہوا لیکن یہ بٹوارا پرامن نہ رہا بلکہ 22 لاکھ انسانوں کا خون بھی اپنے ساتھ لایا۔ اس بٹوارے کو اب 72 سال گزر گئے ہیں لیکن اس بٹوارے نے جو نفرتیں چھوڑی تھیں وہ آج بھی ابھر کر خونریزی کا سبب بن جاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک خون ریزی بھارت کے پائے تخت دلی میں ہوئی۔ ہندوستان میں مسلمان20 کروڑ ہیں، یہ دنیا کی سب سے بڑی اقلیت ہے۔ بہت سارے فسادات ہوئے جن میں بے شمار "انسان" مارے گئے یہ خون خرابہ اس وقت ہوتا ہے جب شہری اپنی شناخت ہندو، مسلمان سے کراتے ہیں اور قاتلوں کو جان لینے کا کوئی بہانہ ہاتھ آتا ہے، دلی میں یہی ہوا۔

بی جے پی کی حکومت نے عوام کو عوام سے لڑانے کے لیے شہریت کا ایک بل پاس کیا ہے جو اقلیتوں کے ساتھ ایک ظلم اور ناانصافی ہے چونکہ بھارت میں 0 2 کروڑ مسلمان رہتے ہیں جو کئی ملکوں کی آبادی سے زیادہ ہیں، اس لیے مختلف حساس مسائل پر ان دو بڑی آبادیوں کے درمیان فسادات پھوٹ پڑے ہیں ایسے ہی ایک تازہ فساد میں آٹھ شہری مارے گئے اور دلی کے مسلمان خوف کا شکار ہوگئے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ انتظامیہ عموماً غیر جانبدار نہیں رہتی جس کی وجہ سے شہر خون کی چادر میں لپٹا رہتا ہے اسی ہفتے دلی میں جو تازہ فسادات ہوئے ہیں ان سے مسلم اقلیت خوفزدہ ہوگئی ہے، بھارت میں رہنے والے سارے ہی ہندو قاتل نہیں ہیں نہ حیوان ہیں۔ ان میں پرامن اور تعصب سے پاک ہندو بھی ہیں۔ انتہا پسندوں نے تین مسلم گھروں پر حملے کیے، لیکن ایک ہندو نے جس کا نام جلی حروف میں آنا چاہیے اپنے ایک مسلمان پڑوسی کے خاندان کی جان بچائی، اس کا نام سنجیو ہے۔

سنجیو بے شک شناخت کے حوالے سے ہندو ہے لیکن اپنے کردار سے وہ فرشتہ سیرت ہے۔ انتہا پسند ہندوؤں کے قاتلانہ حملوں کے دوران سنجیو نے خوف کو دل سے نکال کر مجیب الرحمن اور ان کے خاندان کو پناہ دی جس میں ایک حاملہ بہو بھی شامل تھی۔ سنجیو نے حاملہ خاتون کو بھیڑیوں کی بھیڑ سے حفاظت کے ساتھ نکال کر اسپتال پہنچایا۔ یہی کارکردگی اسے انسان سے فرشتہ سیرت بنا دیتی ہے۔

صدیوں سے ایک ساتھ رہنے والے خاندانوں کے گھر صرف پڑوسیوں کے گھر نہیں رہتے بلکہ وہ بھائیوں جیسے پوتر رشتوں میں بدل جاتے ہیں۔ سنجیو مذہب کے حوالے سے ہندو تھا لیکن انسانیت اس کا اوڑنا بچھوناہے۔ ہوسکتا ہے اس جرم کے حوالے سے بعد میں سنجیو کو انتہا پسند بھیڑیوں کے عتاب کا سامنا کرنا پڑے لیکن سنجیو نے جو کارنامہ انجام دیا ہے وہ انتہا پسند ہندوؤں کے لیے سخت اشتعال کا سبب بن سکتا ہے۔ بھارت کی آبادی لگ بھگ ایک ارب ہے جس میں لاکھوں سنجیو بھی ہیں جو سنجیووں کے خوف سے خاموش رہتے ہیں۔

بھارت ایک ہندو ریاست ہے کیونکہ بھارت کی بھاری اکثریت ہندوؤں پر مشتمل ہے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بھارت میں رہنے والے ایک ارب کے لگ بھگ انسانوں میں سارے مسلمان دشمن ہی نہیں، مسلمان دوست بھی ہیں، ایسے نڈر شہریوں کو بہادری کا اعلیٰ ایوارڈ دیا جانا چاہیے۔ بھارت کی بدقسمتی یہ ہے کہ بھارتیوں نے بی جے پی اور آر ایس ایس کے پروپیگنڈے کا شکار ہو کر بدنام زمانہ گجرات کے قاتل کو وزیر اعظم کے عہدے پر بٹھا دیا اور مودی اپنے دھرم اور ریاست کے بیانیے کے مطابق انسانوں کو حیوانوں کے ذریعے مروا رہا ہے۔ دنیا کے عوام مذہب کے حوالے سے بٹے ہوئے ہیں لیکن وہ اس مقدس رشتے کو بھلا بیٹھے ہیں جو آدم کے حوالے سے سارے انسانوں کو انسانیت کے رشتے میں منسلک کردیتا ہے۔

بھارت میں ہزاروں دانشور، مفکر، ادیب، شاعر اور فنکار ہیں جو انسانی رشتے کی مہانتا کو سمجھتے ہیں لیکن اس قسم کے فرقہ وارانہ قتل و غارت کے موقع پر شیطانوں کے خوف سے منہ بند رہتے ہیں اس حوالے سے بھارتی فکری ایلیٹ کو خوف کی فضا سے نکل کر انسانیت کے حق میں اور حیوانیت کے خلاف اس زور سے آواز اٹھانی چاہیے کہ دنیا سن لے۔