Thursday, 14 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Muslim Mumalik Aur Jadeed Uloom

Muslim Mumalik Aur Jadeed Uloom

او آئی سی مسلم ملکوں کی تنظیم ہے۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد مسلم ملکوں کے عوام کے مسائل اور اجتماعی بھلائی کے لیے جدوجہد کرنا ہے لیکن اس حوالے سے او آئی سی پر نظر ڈالیں تو مایوسی ہی ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ او آئی سی کی قیادت فعال نہیں نہ مسلم ملکوں کے اہم مسائل پر یہ تنظیم نہ کنسرنٹریٹ کرتی ہے نہ عملی جدوجہد کرتی ہے۔

ایک بے عمل ادارہ ہے جسے مسلم ملکوں کے مفاد کے نام پر پالا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ خود مسلم ملکوں کو اپنے مسائل حل کرنے پر او آئی سی پر جو دباؤ ڈالنا تھا اس کی زحمت بھی نہیں کی گئی۔ دنیا میں لگ بھگ 57 مسلم ملک ہیں، لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ ان ملکوں کی قیادت کو مسلم عوام کے بہتر مستقبل کے بجائے اپنے بہتر مستقبل کی زیادہ فکر رہتی ہے، اس حوالے سے سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ مسلم ملکوں میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں، جن ملکوں میں بادشاہتیں اور خلفا کا راج ہے وہاں چونکہ چند افراد کے ہاتھوں میں حکمرانی کی طاقت جمع ہے۔

لہٰذا ایسے ملک میں عوامی اور قومی ترقی نام کی کسی چڑیا کا نام نہیں۔ چند خاندان ہیں جو عشروں سے برسر اقتدار ہیں جن کی کارکردگی کا اندازہ پاکستان کے دس سالہ اشرافیائی دور سے کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کا شمار بھی مسلم ملکوں میں ہوتا ہے پاکستان میں بھی خاندانی نظام مستحکم ہو رہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک کی بجائے حکمران ترقی کر رہے ہیں۔

پاکستان کا شمار بڑے مسلم ملکوں میں ہوتا ہے لیکن پاکستان کے حکمران طبقے نے خود " بڑے " ہونے کے چکر میں ملک کو چھوٹا کر دیا۔ یہ ستم ڈھانے والی اشرافیہ اب آہستہ آہستہ اپنے اقتدارکو مسلسل بنانے کی کوشش کر رہی ہے جیسا کہ ہم نے نشان دہی کی ہے مسلم ملکوں میں بڑا ٹیلنٹ ہے لیکن عوامی حکومتیں نہ ہونے کی وجہ یہ ٹیلنٹ ضایع ہو رہا ہے۔ کشمیر اور فلسطین کے مسائل 70 سال سے زیادہ عرصے سے لٹکے ہوئے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم ملک ان مسائل کو اپنے مسائل نہیں سمجھتے۔ کشمیر دو ماہ سے زیادہ عرصے سے کرفیوکی زد میں ہے، اتنا طویل کرفیو اتنے بڑے مظالم تاریخ کے منہ پر کالک لگانے کے مترادف ہیں۔

اس کی ایک وجہ بڑی طاقتوں کے سیاسی مفادات ہیں لیکن خود مسلم ملک کشمیر اور فلسطین کو وہ اہمیت نہیں دیتے جس کی کشمیرکو ضرورت ہے۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم ملکوں خاص طور پر عرب ملکوں نے کشمیر اور فلسطین کو وہ اہمیت نہیں دی جن کے وہ مستحق نہیں ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس حوالے سے سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت سے مسلم ممالک کے تعلقات زیادہ قریب ہیں بہ نسبت پاکستان کے خاص طور پر عرب ممالک کے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بھارت اور زیادہ شیر ہوگیا ہے " شہریت بل" اسی ٹیننسی کا مظہر ہے کوئی احتجاج نہیں کوئی سفارتی دباؤ نہیں۔

دنیا سائنس ٹیکنالوجی تحقیق کے میدانوں میں تیزی سے پیش رفت کر رہی ہے، مسلم ملکوں خاص طور پر عرب ملک نیویارک اور پیرس کے 5 اسٹار ہوٹلوں میں تحقیق کررہے ہیں، ان کی نوابی کا عالم یہ ہے کہ کھانے پینے کی اشیا تک باہر سے منگواتے ہیں ہم جدہ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ روٹی بھی امپورٹ کی جاتی ہے۔ بھارت، بنگلہ دیش وغیرہ ہمارے ساتھ ساتھ آزاد ہونے والے ملک ہیں لیکن وہاں اقتصادی ترقی تیزی سے ہو رہی ہے۔ ہم مسلم ملکوں کی تنزلی کی ذمے داری حکمرانوں پر لگاتے ہیں کیونکہ حکمران طبقے کی سرشت میں لوٹ مار ہے جس طرح پانی کے بغیر مچھلی زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح کرپشن کے بغیر پاکستان کا حکمران طبقہ زندہ نہیں رہ سکتا۔

او آئی سی اگر ڈمی تنظیم نہیں ہے تو مسلم عوام پوچھتے ہیں کہ مسلم ملکوں کے عوام کا معیار زندگی کتنا بڑھا، کتنی خوشحالی آئی۔ یورپ امریکا زندگی کے ہر شعبے میں مسلسل ترقی کر رہے ہیں اور اسی لیے دنیا پر ان کی بالادستی قائم ہے صرف مغرب کو گالیاں دینے اور کوسنے سے ملک ترقی نہیں کرسکتے بلکہ انھیں جدید علوم سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں آگے بڑھنا پڑے گا اور تعلیمی نظام کو عصری ضرورتوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔

جدید علوم اور ریسرچ آج کے دور کی دو اہم ترین ضرورتیں ہیں۔ سعودی عرب، عرب امارات وغیرہ بے پناہ دولت کے مالک ہیں۔ اگر یہ ممالک جدید علوم اور ریسرچ پر ہی توجہ دیں تو مسلم ملک ترقی کی راہ پر آگے بڑھ سکتے ہیں، اگر ان دو ملکوں کے ساتھ ساتھ دوسرے مسلم مالدار چاہیں تو 57 جدید یونیورسٹیز 57 مسلم ملکوں میں قائم کرسکتے ہیں۔ اگر یہ کام حج اور عمرے کی آمدنی سے کیا جائے تو نہ صرف 57 اوآئی سی یونیورسٹیز قائم ہوسکتی ہیں بلکہ ہر ایک مسلم ملک میں ایک جدید تحقیقی ادارہ بھی قائم کیا جاسکتا ہے۔

ذرا آپ اندازہ لگائیں اگر 57 مسلم ملکوں میں عرب ملکوں خاص طور پر سعودی عرب اور امارات او آئی سی یونیورسٹیز اور جدید تحقیقی ادارے قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو ان کا مسلم ملکوں کو کس قدر فائدہ ہوسکتا ہے۔ مسلم ملکوں میں ادیب بھی ہیں، شاعر بھی، دانشور بھی، مفکر بھی، فلاسفر بھی ان کی کارکردگی دیکھ کر ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ "کیا یہ محترمین زندہ ہیں؟ "

مسلم دنیا کے بہتر مستقبل کے لیے جدید علوم تحقیق ناگزیر ہے لیکن یہ کام کرے گا کون؟ یہ سوال او آئی سی سے خاص طور پر ہے کیونکہ او آئی سی مسلم ملکوں کا ایک بڑا مالدار اتحاد ہے۔