Thursday, 14 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Naye Aur Purane Siyasi Karkun

Naye Aur Purane Siyasi Karkun

سیاسی کارکن، سیاسی جماعتوں میں ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں۔ عوام میں سیاسی جماعتوں کا تعارف، سیاسی جماعتوں کے منشور سے عوام کو آگاہ کرنا اور سب سے اہم کام عوام سے مسلسل رابطے میں رہنا سیاسی کارکنوں کی بنیادی ذمے داریوں میں شامل ہے۔ سیاسی کارکن کو باشعور بنانے، ملک کے حالات سے واقف کرانے اور بین الاقوامی حالات سے سیاسی کارکنوں کو واقف کرانے ان کے اندر ڈسپلن پیدا کرنے، علاقائی مسائل پرگفتگو کرنے کے لیے سیاسی جماعتیں اسٹڈی سرکل کا اہتمام کرتی ہیں۔

اب یہ سارا سلسلہ تقریباً ختم ہو چکا ہے، اب سیاسی کارکنوں کا کام یہ رہ گیا ہے کہ وہ سیاسی اشرافیہ کے لیے گلی گلی پھر کر عوام کو جلسوں اور جلوسوں میں آنے کے لیے راضی کریں۔ جلسہ گاہ کا انتظام کریں، جلسہ گاہ میں کرسیاں لگائیں اور نعرے لگانے والی ٹیمیں تیار کریں۔

اس ماڈرن سیاسی کارکن کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے سیاسی رہنماؤں خاص طور پر مرکزی قیادت کے آس پاس رہے، ان کی نظروں میں آئے اور مالی فوائد حاصل کرے۔ اس کلچر کی وجہ سے عوام الناس سیاسی جماعتوں سے لاتعلق ہو کر رہ گئے ہیں۔ آج ملکی سیاست پر نظر ڈالیں تو آپ کو سب یہی مناظر آئیں گے۔

اب اسٹڈی سرکل کا نظریہ آؤٹ ڈیٹڈ ہو گیا ہے، اب جلسوں کی سیاست چل رہی ہے، ہر علاقے میں عوام فراہم کرنے والے ٹھیکیدار موجود ہیں۔ جلوسوں میں شریک ہونے والوں کو باضابطہ دیہاڑیاں دی جاتی ہیں۔ ان کے کھانے پینے اور ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا جاتا ہے اور کارکنوں کے منہ میں وقت اور ضرورت کے مطابق نعرے ٹھونس دیے جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں اہل سیاست کا اسپتالوں اور جیل جانے کا اتفاق ہوا، ہم نے بڑی حیرت سے دیکھا ہمارے کارکنوں نے لیڈر حضرات کی قیمتی گاڑیوں کو گلاب کی پتیوں سے لاد دیا تھا، یہ اس ملک میں ہو رہا ہے جہاں کے عوام کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں، جلسے جلوسوں کے موقع پر سیاسی کارکن زیادہ پرجوش ہوتے ہیں تو عوامی جائیداد کی توڑ پھوڑ کرتے ہیں اور اشتعال انگیز نعرے لگاتے ہیں۔

پولیس اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے کارکنوں کو پکڑ کر موبائلوں میں بھر کر پولیس اسٹیشن لاتی ہے، پھر ایک ٹیلیفون آتا ہے، سارے پکڑے گئے کارکن چھوڑ دیے جاتے ہیں اللہ اللہ خیر صلہ۔ یہ ہے ہمارے سیاسی کارکنوں کی سیاسی مصروفیت، جب سیاست کا عالم یہ ہو تو عوام کے مسائل کس طرح حل ہوں گے، یہ ایک ایسا سوال ہے جو عشروں سے جواب طلب ہے لیکن پھر بھی اس کا جواب نہیں ملتا۔

ماضی کے سیاسی کارکن نظریات سے لیس رہتے تھے اور ان کی عقیدت کا مرکز پارٹی کا منشور ہوتا تھا۔ پارٹی منشور کو فالوکرنے کے لیے ماضی کے سیاسی کارکن اپنا تن من دھن سب نثار کر دیتے تھے۔ ہمارے ایک سیاسی دوست تھے محمد زبیر، وہ تقسیم سے پہلے سے پارٹی کے مخلص کارکن تھے، لانڈھی فیوچر کالونی میں ایک کچی اینٹوں کا محل بنا رکھا تھا، بال سفید ہونے کو آ رہے تھے لیکن بیچلر تھے یعنی کرونیکل بیچلر۔ تنہا زندگی گزارتے تھے۔

ان کا ایک کمرے کا گھر سیاسی کارکنوں کی بیٹھک کا کام انجام دیتا تھا۔ جہاں ملکی مسائل کے ساتھ بین الاقوامی مسائل پر گفتگو ہوتی تھی، اس زمانے میں پولیس کی ڈیوٹی یہ ہوتی تھی کہ وہ ترقی پسند کارکنوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھتے تھے، جیل اس دور کے سیاسی کارکنوں کا گھر آنگن تھا۔ محمد زبیر کا چھوٹا سا بیگ ہر وقت تیار رہتا تھا۔ جب جیل جانا ہوتا تھا اور اکثر جانا ہوتا تھا تو کسی تیاری کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، بس بیگ کندھے پر لٹکایا اور پولیس کی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ پولیس کے سپاہی اس قسم کے سیاسی کارکنوں، سیاسی جیل یافتوں کی عوام ہی نہیں پولیس بھی عزت کرتی تھی۔

اجمل خٹک بائیں بازو کے ایک سینئر سیاسی رہنما تھے، اکوڑہ خٹک میں رہتے تھے محمد زبیر کی طرح ان کی زندگی کا بھی ایک بڑا حصہ جیل میں گزرا۔ 1967میں ہم چند سیاسی دوست پنجاب اور خیبر پختونخوا کے دورے کے لیے نکلے، مقصد دوستوں سے ملاقات اور قومی اور بین الاقوامی مسائل پر گفتگو تھا، پھرتے پھراتے اکوڑہ خٹک گئے، اجمل خٹک منتظر ملے معہ دوستوں کے کافی دیر تک گفتگو ہوتی رہی، کوئی تین بجے ایک پولیس مین آیا خٹک صاحب کے وارنٹ تھے، خٹک صاحب نے ہم سے معذرت چاہی اور باہر نکل گئے، پولیس کا سپاہی خٹک صاحب کا بیگ تھامے ہوئے تھا۔ اس زمانے میں عام لوگ ہی نہیں بلکہ پولیس والے بھی سیاسی کارکنوں کی عزت کرتے تھے۔

ملتان کے اشفاق احمد خان ایڈووکیٹ بڑے نڈر رہنما تھے، ہم جب آدھی رات کو مردان جانے کے لیے گھر سے نکلے تو سامان اٹھانے والا کوئی نہ تھا، اشفاق احمد خان ایڈووکیٹ اور ان کے دوستوں نے سوٹ کیس وغیرہ اپنے سروں پر رکھ لیے اور ریلوے اسٹیشن کی جانب چل پڑے، یہ تھی کارکردگی اور خلوص، یہ تھے سیاسی کارکن۔ بھٹو صاحب کے زمانے میں اشفاق خان کو سفیر بنا دیا گیا تھا اور یہ حکم انھوں نے ایک جلسہ عام میں دیا تھا۔

آج ہم نے ماضی کے چند اوراق پلٹے ہیں، ہمارا ارادہ سیاسی کارکنوں پر ایک کتاب لکھنے کا ہے، اس سے ماضی کے سیاسی کارکنوں کا تعارف بھی ہو جائے گا اور ماضی اور حال کے سیاسی کارکنوں کا فرق بھی واضح ہو جائے گا۔ دیکھیے اس بڑے کام کے لیے ہماری صحت ساتھ دیتی ہے یا نہیں۔