جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمن نے پورے جوش اور ولولے سے اپوزیشن کو زندہ رکھنے کی ایک مجاہدانہ کوشش کی، افرادی طاقت کے ساتھ تحریک شروع کی لیکن آخر کار وہ پرامن طور پر کچھ حاصل کیے بغیر ختم ہوگئی۔ ڈسپلینڈ کارکنوں کی اتنی بڑی تعداد کے باوجود تحریک کی ناکامی ہی نہیں اپوزیشن کا تتر بتر ہونا ایک بڑے المیے کے ساتھ ساتھ ایک ایسا بڑا سبق ہے جس سے عبرت پکڑنا اور سبق سیکھنا چاہیے۔
جب ہم تحریک کی اس ناکامی پر نظر ڈالتے ہیں تو سب سے پہلے قابل اعتماد اتحادیوں کا ناقابل اعتماد ہونا آتا ہے۔ مولانا کو غالباً سو فیصد اعتماد تھا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی آخر تک تحریک کا ساتھ دیں گے لیکن ہوا یہ کہ یہ دونوں قابل اعتماد اور ضرورت مند جماعتیں تحریک شروع ہونے سے پہلے ہی بھاگ کھڑی ہوئیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مولانا ان دونوں جماعتوں کی کمزوریوں سے بے بہرہ رہے۔ حالانکہ مولانا ایک انتہائی تجربہ کار اور حقائق آشنا سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی لیڈر بھی ہیں۔
جو حقائق نواز شریف اور زرداری سمجھ چکے تھے مگر تحریک کی قیادت کرنے والے مولانا فوری طور پر نہ سمجھ سکے جب بعد ازاں صورتحال سمجھ سکے تو معاملہ چڑیاں چگ گئیں کھیت کا ہوچکا تھا۔ مولانا کو نہ جانے کیوں یہ یقین تھا کہ عوام ان کے ساتھ ہیں جب کہ کرپشن کے حوالے سے نواز شریف اور زرداری سمجھ چکے تھے کہ اس جگ ہنسائی کے بعد عوام کی حمایت کا سوچنا درست عمل نہیں ہوگا۔ میاں نواز شریف نے بہت کوشش کی کہ عوام سڑکوں پر آئیں لیکن نواز شریف کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ میاں صاحب نے اپنی صاحبزادی کو آگے بڑھایا صاحبزادی نے بھی سر پیر کا زور لگالیا لیکن ابھی بہت محنت کی ضرورت ہے۔
صاحبزادی نے حکمرانوں کو للکارا اور ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا عندیہ دیا، لیکن حالات میں مطلوبہ تبدیلی نہیں آئی۔ میاں صاحب گرفتار ہوئے، لمبی سزا ہوئی۔ بیٹی کے خلاف کیسز بنے، بیٹی بھی گرفتار ہوئی۔ شہباز شریف انتہائی سمجھ داری اور بڑی ہنرمندی سے گرفتاری سے بچے رہے۔ میاں صاحب مایوسی کا شکار ہوگئے دل کے امراض میں گھر گئے، اور وہ اس گھمبیر اور مخالف فضا سے نکل کر لندن پہنچ گئے۔
پاکستان میں یہ سب کچھ اس لیے ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے کہ یہاں کبھی عوام کو سیاسی سرگرمیوں میں آنے نہیں دیا گیا، ہمیشہ انھیں حاشیے پر رکھا گیا۔ بھٹو کے آنے سے پہلے تو عوام عوامی سیاست ہی سے نا واقف تھے۔ بھٹو نے اورکچھ کیا نہ کیا اتنا ضرورکیا کہ عوام کو کسی حد تک سیاست سے آشنا کیا۔
بھٹو سے پہلے بھٹو کے بعد جو بھی سیاسی اکابرین آئے ان کی نظر اپنے ذاتی اور جماعتی مفادات سے آگے نہ جاسکی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاست اور اقتدار اشرافیہ کے گھر کی لونڈی بنے رہے۔ پاکستانی سیاست اور جمہوریت کا المیہ یہ رہا کہ یہ ہمیشہ اشرافیہ کے محور پرگردش کرتے رہے۔ یہ ٹرینڈ نواز شریف اور زرداری تک چلتا رہا اس اضافے کے ساتھ کہ سیاست ہی نہیں پورے معاشرے میں کرپشن عام ہوگئی جس کا دیدار ہم 10 سال تک کرتے رہے اس دور کا ایک المیہ یہ رہا کہ سیاسی کارکن بھی کرپشن کے رسیا ہوگئے پورا معاشرہ پورا ملک پوری سیاست کرپشن کے محور پر گھومنے لگی۔
دولت کی ہوس کا عالم یہ رہا کہ کروڑوں کی دولت کے مالک عرب ملکوں کی کمپنیوں میں پارٹ ٹائم جاب سے لاکھوں روپے کمانے لگے اور وزارت کی تنخواہ اور آمدنی اس کے علاوہ تھی۔ یہ تھی وہ بدترین صورتحال جس میں انتخابات ہوئے اور عمران خان برسر اقتدار آئے۔
حصول اقتدار کے لیے سوا سال کی لگاتار کوششوں کے بعد یہ سوچنا بھی حماقت ہوگی کہ یہ اشرافیائی گروہ مایوس ہوگیا ہے۔ نہیں نہیں۔ ایسا سوچنا بھی حماقت ہے اس گروہ نے بڑی چالاکی سے آل اولاد پر مشتمل ولی عہدوں کو اپنی جگہوں پر بٹھا دیا ہے اور اس عرصے میں یہ ولی عہد سیاست کے نشیب و فراز سے اچھی طرح واقف ہوگئے ہیں اور مستقبل میں اپنے بزرگوں کی جگہ لینے کے لیے تیار ہیں اور اس مہم کے لیے زاد راہ ضرورت سے کئی گنا زیادہ جمع کرلیے ہیں۔
کارکنوں کو جس راستے پر چلایا گیا ہے اس کے پس منظر میں کارکنوں کی کمی کا بھی کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ سرمایہ دارانہ نظام اشرافیہ کے پیچھے باڈی گارڈ کی طرح کھڑا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ایماندار سیاستدانوں نے بے ایمانی یہ کی کہ اشرافیہ کا متبادل بننے کی کوشش نہیں کی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مڈل کلاس کی جماعتوں کے پاس موجودہ سسٹم میں انتخابات لڑنے کے وسائل نہیں لیکن ستم یہ کہ مڈل کلاس کی جماعتوں نے عوام میں جانے کی اور انھیں اپنے منشور سے واقف کرانے کی سرے سے کوشش ہی نہیں کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اشرافیہ کو جیسے ہی میدان خالی ملے گا وہ دھڑلے سے میدان سیاست میں وارد ہوں گے اور انھیں میدان خالی ملے گا۔ اب یہ عوام کا فرض ہے کہ وہ کرپٹ سیاستدانوں کو مسترد کردیں۔