Wednesday, 06 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Opposition Ki Siasat

Opposition Ki Siasat

آج کل ہمارے سیاستدان چیل کو بھینس کہہ رہے ہیں، کہہ ہی نہیں رہے ہیں بلکہ بھینس کو اڑا بھی رہے ہیں۔ چیل اڑی تو بھینس اڑی کہنا ایک محاورہ ہے، اس محاورے پر پہلی بار ہماری پی ڈی ایم عمل کر رہی ہے۔

ایک کہتا ہے حکومت عنقریب جانے والی ہے تو دوسری تان لگاتی ہے حکومت لانگ مارچ سے پہلے چلی جائے گی۔ جانے اور آنے کا ایک تانتا بندھا ہوا ہے۔ حکومت چل رہی ہے اور بے فکری سے چل رہی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس کے پاس ایسی پروپیگنڈا ٹیم نہیں ہے جیسی پی ڈی ایم کے پاس ہے۔

آج کی دنیا پروپیگنڈے کی دنیا ہے جس سیاسی جماعت کے پاس متحرک پروپیگنڈا مشینری ہے، وہ چاہیے کتنی بڑی نالائق ہی کیوں نہ ہو، پروپیگنڈے کی شدت میں اس کی نالائقی چھپ جاتی ہے۔ حکومت بڑی پلاننگ سے ترقیاتی منصوبے بنا رہی ہے لیکن عوام تک ان منصوبوں کو پہنچانے اور ان کے فوائد گنوانے میں ناکام ہے، جو منصوبے حکومت بنا رہی ہے اور ان پر عملدرآمد کی کوشش کر رہی ہے، اگر ان کاوشوں کو عوام تک صحیح حالت میں پہنچایا جائے تو غلط اور مفروضہ پروپیگنڈے کی دھول ایک دم بیٹھ جائے گی اور حقائق عوام کے سامنے آجائیں گے۔

یہ کام بازی کو پلٹ دے گا۔ میرے جیسے جو اہل قلم آج حکومت کی حمایت کر رہے ہیں، وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ حکومت ارب پتیوں کی نہیں بلکہ مڈل کلاس کے ایماندار لوگوں کی ہے اور ہر شعبے میں بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ کام کررہی ہے جس کے نتائج مستقبل میں بہتر نکلیں گے۔ حکومت اس سازش کو روکنے میں ناکام رہی ہے جو مہنگائی کی شکل میں عوام کے سروں پر تھوپ دی گئی ہے۔ یہی ایک ایسی کمزوری ہے جو حکومت کو نقصان پہنچا سکتی ہے لیکن یہ نیک کام اس منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جا رہا ہے کہ عوام اس سے متاثر ہو سکتے ہیں بلکہ ہو رہے ہیں۔

موقعے پرست سیاست نے زندگی کے ہر شعبے میں اتنے منافق پیدا کر دیے ہیں کہ نظریات کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہی ہے۔ مہنگائی ایک ایسی بلا ہے جو مردوں کو قبر میں بھی بے چین کردیتی ہے، ہمارا غریب طبقہ اس بلا سے سخت پریشان ہے اور وہ مہنگائی کے حوالے سے عوام دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل سکتا ہے۔ ایک مہنگائی سرمایہ دارانہ نظام کی لائی ہوئی ہے جسے کوئی نہیں روک سکتا لیکن دوسری مہنگائی جو ایلیٹ کی لائی ہوئی ہے اگر سختی کے ساتھ اور منصوبہ بندی کے ساتھ روکنے کی کوشش کی گئی تو اس کو روکا جاسکتا ہے اور ایسا ہوا تو یہ حکومت کی بڑی کامیابی ہوگی۔

ویسے تو پہلے ہی سے اپوزیشن کی پروپیگنڈا ٹیم بہت وسیع اور زیرک ہے۔ اپوزیشن کا کام ہی ہماری روایات کے مطابق حکمرانوں پر تنقید کرنا ہوتا ہے لیکن اس حوالے سے ہماری اپوزیشن کا رویہ اس قدر جارحانہ ہے کہ کسی حکومت میں اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ حمزہ شہبازکی آمد سے بلاشبہ اپوزیشن کو طاقت ملی ہے لیکن حمزہ شہباز، مریم بی بی کا متبادل ہو سکتا ہے جب کہ بلاول بھی سیاست کا اہم کھلاڑی ہے یعنی ان تینوں امیدواروں کی نظر وزارت عظمیٰ کی کرسی پر ہوں گی اور اس حوالے سے جوتوں میں ایسی دال بٹے گی کہ عوام محو حیرت رہ جائیں گے۔

حکومت میں عمران خان کا کوئی رقیب نہیں ہے لہٰذا عمران بڑے اطمینان سے کام کر رہے ہیں لیکن خدانخواستہ اگر ہماری اپوزیشن انتخابات جیت لیتی ہے تو اس کے سامنے تین وزیر اعظم ہوں گے۔ اگر ہم سے پوچھا جائے کہ پی ڈی ایم میں کون ایسا ہے جو وزارت عظمیٰ کا اہل ہو سکتا ہے تو ہمارا ووٹ پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی کو جائے گا جو ماضی میں بھی وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور ان میں وزارت عظمیٰ کو سنبھالنے کی اہلیت بھی ہے لیکن اگر ایسا ہوا تو مریم بی بی اور بلاول کا کیا ہوگا جو اپنے آپ کو وزیر اعظم کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔

پاکستان کی 72 سالہ جمہوریت کی ٹریجڈی یہ ہے کہ اس پورے دور میں اشرافیہ ہی حکمران رہی جب کہ جمہوری حکومتوں میں آبادی کی اکثریت حکمرانی کی مستحق ہوتی ہے۔ اشرافیہ نے ملک کی اکثریت یعنی مزدوروں اورکسانوں کو غلام بنائے رکھا ہے۔ ان کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ کوئی مزدور رہنما اور کسان رہنما اس ملک کا وزیر اعظم ہو سکتا ہے۔

اب مزدوروں اور کسانوں کے بچے بھی اپنی محنت اور لگن سے تعلیم یافتہ ہی نہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو رہے ہیں لیکن غربت کی وجہ وہ کسی الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے کیونکہ ہماری ایلیٹ نے عوام کو اقتدار سے دور رکھنے کے لیے الیکشن کو اس قدر مہنگا کر رکھا ہے کہ صرف کروڑ پتی ہی الیکشن لڑ سکتا ہے اور وہ غریب عوام جو ساری زندگی دو وقت کی روٹی کے لیے بھاگتے رہتے ہیں، وہ بھلا الیکشن میں حصہ لینے کی کیسے سوچ سکتے ہیں۔

72 سال سے عوام کا حق مارا جارہا ہے۔ آج بھی ان کی اولاد اقتدارکے مالک ہیں۔ اس موروثیت پر اب جھاڑو پھیرنے کی ضرورت ہے جیساکہ ہم نے نشان دہی کی ہے کہ آج مزدوروں اور کسانوں کے اکا دکا بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرچکے ہیں اور اہل بھی ہیں لہٰذا انتخابی اخراجات کے نظام کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ غریب بھی الیکشن میں حصہ لے سکے۔