آئے گئے ہر طرف جعلی اکاؤنٹس کا چرچا ہونے لگا، یوں نامعلوم اشرافیہ کے کارناموں سے دنیا حیران ہوگئی، آمدنی سے زیادہ اثاثوں کا ایک سلسلہ چل پڑا، کرپشن کا ایک بھونچال آگیا۔ اس تناظر میں نیب غیر معمولی طور پر ایکٹیو ہوگیا اور بڑے بڑے لوگ جن میں سابق صدر اور وزیر اعظم شامل ہیں۔ کرپشن کے الزام میں پکڑ لیے گئے۔
پاناما اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد کرپشن کا جو بھونچال آگیا، نیب اس کے بعد ایکٹیو ہوگیا اور بیسیوں اعلیٰ درجے کے شہری " اشرافیہ " گرفتاریوں کی زد میں آگئے۔ ایک عام تاثر یہ ہوگیا کہ اہل سیاست نے لوٹ مارکی حد کر دی۔ اس تناظر میں کسی نہ کسی احتسابی ادارے کا ایکٹیو ہونا ایک فطری بات تھی سو نیب نے یہ ذمے داری پوری کی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عوامی دولت کی اس لوٹ مار کی کہانیاں کیا فرضی تھیں یا ان میں کوئی حقیقت تھی؟
عام طور پر قومی دولت کی لوٹ مارکی یہ داستانیں حکومتوں کی تبدیلی کے بعد منظر عام پر آئیں ، پچھلے دس سالوں سے وہی دو جماعتیں برسر اقتدار رہیں جن کا نام کرپشن کے حوالے سے زبان زد عام ہوگیا تھا۔ 2018 سے پہلے بھی ملک میں احتسابی ادارے موجود تھے اور مبینہ طور پر بھاری کرپشن کا ارتکاب بھی ہورہا تھا پھر اس وقت کے احتسابی اداروں نے کارروائی کیوں نہیں کی؟ اس سوال کا جواب یہ دیا جا رہا ہے کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا تھا سو پکڑنے والا کون تھا؟
نیب آرڈیننس کے حوالے سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے نیب آرڈیننس میں ترمیم کا بل متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ گرفتاریوں کے لیے چیئرمین نیب کا اختیار ختم کردیا گیا۔ ملزموں کو دوران تفتیش گرفتار نہیں کیا جائے گا، غلط الزام یا غلط تفتیش پر نیب افسر جوابدہ ہوگا، پلی بارگین عدالت کی اجازت سے ہوگی۔ نیب کے اختیارات کے حوالے سے اہل سیاست بہت شاکی تھے اور تسلسل کے ساتھ اس میں ترامیم کے خواہاں تھے۔
اب سیاستدانوں کی آرزو پوری ہوگئی ہے، نیب آرڈیننس میں ترمیم کردی گئی ہے۔ کسی بھی مبینہ ملزم کوگرفتار کرنے کے لیے چیئرمین نیب کو مکمل اختیارات حاصل تھے، جس کے حوالے سے سیاستدانوں کا موقف یہ تھا کہ چیئرمین نیب ان اختیارات کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ کسی کو گرفتار کرنے کے لیے الزام کوکافی سمجھا جاتا تھا۔ یہ اس حوالے سے ایک غلط پریکٹس تھی کہ الزام لگانے کے لیے کسی قسم کی کوئی شرط نہ تھی جس کی وجہ بہت سارے بے گناہ لوگ بھی پکڑے جاتے تھے اس کا ازالہ ضروری تھا، سوکر دیا گیا۔
اس حوالے سے پہلی بات یہ ہے کہ نیب کب سے ایکٹیو ہوا ہے اورکیوں ہوا ہے؟ نیب کوئی نیا ادارہ نہیں ہے یہ برسوں سے کام کر رہا ہے لیکن عمران حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد اہل سیاست پرکرپشن کے الزامات کی بارش ہوگئی۔ جعلی اکاؤنٹس کا ایک ایسا سلسلہ چل پڑا کہ وہ غریب جنھوں نے کبھی پچیس پچاس ہزارکی رقم وقت واحد میں نہیں دیکھی تھی، ان کے اکاؤنٹس میں کروڑوں روپے آگئے جس پر نیب نے پکڑ دھکڑ شروع کی۔
الزامات صرف اشرافیہ پر ہی نہیں لگے بلکہ اشرافیہ کی آل اولاد اور قریبی رشتے داروں پر بھی لگے اور ان میں سے کئی ایک پکڑے جانے کے خوف سے ملک ہی سے فرار ہوگئے جس کا مطلب یہ لیا گیا کہ کچھ نہ کچھ دال میں کالا ہے یا پوری دال ہی کالی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کرپشن سے شروع ہوتا ہے اور کرپشن پر ختم ہوتا ہے۔ منی ریس سرمایہ دارانہ نظام کا ایک ایسا لوازمہ ہے جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور اس نظام میں کرپشن قطعی ناگزیر بنی ہوئی ہے۔
اس حوالے سے جعلی اکاؤنٹس کا ایک ایسا بھونچال آیا کہ غریب اور گمنام لوگوں کے اکاؤنٹس میں غیب سے کروڑوں روپے آگئے۔ کیا یہ بھاری رقوم آسمان سے ٹپکی تھیں یا ہماری اشرافیہ کی کاری گری تھی کیا ہمارے کسی قومی ادارے نے اس کی چھان بین کی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب 72 سالوں پر پھیلا ہوا ہے ملک کو قائم ہوئے 72 سال ہوئے اس دوران ہر طرف کرپشن ہی کرپشن کا بول بالا تھا کوئی احتساب تھا نہ کوئی احتسابی ادارہ ایکٹیو تھا اشرافیہ تھی اور اس کے کارندے تھے اور لوٹ مار کا بازار تھا۔ لوٹ مار کے مرتکب اس قدر نڈر اور بے باک تھے کہ کسی کو احتساب کا کوئی خوف تھا نہ کوئی احتسابی ادارہ ایکٹیو تھا۔
پی ٹی آئی حکومت کو اقتدار سنبھالے ہوئے لگ بھگ ایک سال ہو رہا ہے، اشرافیہ پر مشتمل اپوزیشن اس عرصے میں حکومت پر بہت سے الزامات لگاتی رہی لیکن یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ حکومت پر کرپشن کا ایک بھی الزام نہیں لگایا جاسکا۔ اس کے باوجود ہماری اپوزیشن رات دن ایک ہی بات دہرا رہی ہے کہ ہم حکومت کو گرا کر رہیں گے۔ لیکن یہ نہیں بتا رہی ہے کہ اس کا جرم کیا ہے؟ یہ کہانی سرمایہ دارانہ نظام کی طرح لمبی ہے یہ چلتی رہے گی۔
نیب اپوزیشن کی آنکھوں میں کھٹک رہی تھی اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے گئے۔ بڑی اچھی بات ہے لیکن اس کے بعد کیا ہوگا۔ کیا کرپشن ختم ہوجائے گی؟ ایسا ممکن نہیں کیونکہ کرپشن اور سرمایہ دارانہ نظام کا چولی دامن کا ساتھ ہے اب سوال یہ ہے کہ نیب قوانین میں ترمیم کے بعد احتساب کا کیا ہوگا؟ پرانے درجنوں کرپشن کے کیس ہیں اور نئے آ سکتے ہیں کرپشن رکتی ہے نہ رکے گی۔ کیونکہ اشرافیہ کی عیاشیوں کو جاری رکھنے کے لیے کرپشن ناگزیر ہے۔
اب کسی نیک احتسابی ادارے سے صرف ایک کام کروایا جائے کہ بلاتخصیص یہ دیکھا جائے کہ اشرافیہ کے کون سے محترمین کے پاس آمدنی سے سو گنا زیادہ اثاثے ہیں اور یہ کام ایسے ادارے سے کرایا جائے جو مکمل آزاد اور غیر جانبدار ہے۔