ہماری دنیا میں برسوں پہلے جو قانون اور قواعد بنائے گئے تھے اب وہ حالات حاضرہ میں ازکار رفتہ ہوگئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کی دنیا میں حالات کے تقاضوں کے مطابق ایسے قاعدے اور قوانین کی ضرورت ہے جو دنیا کے موجودہ مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
مثال کے طور پر دنیا کے مختلف ملکوں میں ہونے والی جنگیں ہیں۔ جنگ خواہ آج لڑی جانے والی ہو یا سیکڑوں سال پہلے لڑی جانے والی ہو، اس میں انسانی جانوں کے زیاں کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوا۔ ہم نے دوسری عالمی جنگوں کے دوران اقوام متحدہ کی فعالیت دیکھی ہے، اس کے بعد دنیا بار بار مختلف ملکوں کے درمیان بے حسی کا ایک استعارہ بنی رہی۔
مسائل کو جانے دیں آج کے تازہ مسائل میں مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین شامل ہے، ان ملکوں میں رہنے والے عوام براہ راست خونریزی کا سامنا کر رہے ہیں اور اقوام متحدہ سمیت کئی ادارے ان مسائل کو حل کرنے میں سرے سے ناکام رہے ہیں۔
کیا ان ناکامیوں میں پرانی اقوام متحدہ کا گلا سڑا نظام حائل نہیں ہے، ابھی حال میں پاکستان نے بھارت سے چینی اور کپاس کی تجارت کی بات کی تھی لیکن دنیا کے پسماندہ ترین ملکوں کے قاعدے قوانین اور ذہنیت نے اس باہمی مفادات کی کوششوں کو ناکام بنا دیا اور دونوں ملکوں کے غریب عوام کو پہنچنے والا فائدہ ماضی پرستوں کی زد میں آ کر بے کار ہو گیا۔
کیا جن اصولوں اور جس ذہنیت کی وجہ دونوں ملکوں کے لگ بھگ ڈیڑھ ارب انسان دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی تجارت کے آڑے آگئے، یہ بات درست ہے کہ جس پس منظر میں اس ممکنہ تجارت کو ختم کردیا گیا، کیا یہ ناکامی ان فرسودہ خیالات کے مرہون منت نہیں جو دونوں ملکوں کی مٹھی بھر ایلیٹ کے ضابطوں اور روایات کا نتیجہ نہیں۔ کیا ان روایتوں اور ضابطوں کا غلام رہنا ضروری ہے یا اس کا کوئی بہتر متبادل ڈھونڈنا ضروری ہے جو ماضی پرستوں کی انا اور بھارت کی ضد کی بلی چڑھ گئے۔
کیا دونوں ملکوں کے ڈیڑھ ارب انسانوں کے مفادات کو محض ایک طاقتور ملک کی غیر اخلاقی اور غیر اصولی ضد کے آگے سرینڈر ہونا چاہیے یا اس کا کوئی بہتر متبادل تلاش کرنا چاہیے جو دونوں ملکوں کی روایتی سیاست کرنے والوں کی کامیابی اور دونوں ملکوں کے ڈیڑھ ارب انسانوں کے مفادات کو نقصان پہنچانا ہے، دونوں ملکوں کا ماضی جو ہزاروں سالوں پر مشتمل ہے۔ اس کی کامیابی کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ دونوں ملک اپنی نظریاتی آبادی کے ساتھ ہزار سال سے زیادہ عرصے تک بھائیوں کی طرح ایک ہی مشترکہ کلچر کے ساتھ ساتھ رہے اور خوشحال رہے جو ذہنیت عوام کو ایک دوسرے کے قریب آنے نہیں دیتی کیا اس کی حمایت کی جانی چاہیے؟
پاکستان اور بھارت کا شمار دنیا کے پسماندہ ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ پاکستان بوجوہ ایک عرصے سے مہنگائی کے سیلاب میں گھرا ہوا ملک ہے، یہاں یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ تقسیم کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان جو ذہنیت پروان چڑھی، وہ خلوص محبت اور رواداری سے محروم اور نفرت اور دوری پر مشتمل تھی اگر ابتدا ہی میں محبت اور رواداری کے حامی مضبوط اور متحرک رہتے اور دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لا کر ان کے درمیان دشمنی کی ذہنیت کا خاتمہ کرتے تو آج صرف دو آئٹم کی تجارت کا مسئلہ اس طرح کھٹائی میں نہ پڑتا، دونوں ملکوں کے غریب عوام ان فوائد سے محروم نہ ہوتے جو تجارت کے ذریعے دونوں ملکوں کے عوام کو بھاری فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کے منفی حالات کی روشنی میں چینی اورکپاس کی ممکنہ تجارت کو جو زک پہنچی ہے، کیا اس کا ازالہ ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب نفی میں اس لیے آ رہا ہے کہ ہم ماضی میں زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ حال اور مستقبل سے بے نیاز ہیں جو ایک طرف عوام کے مفادات کی نفی کر رہا ہے تو دوسری طرف علیحدگی اور اجنبیت کو فروغ دے رہا ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم مشترکہ طور پر ایسی سیاست پر کاربند رہیں کہ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے سے پر اعتماد کرنے کا کلچر نصیب ہو اور مسئلہ کشمیرکو خوش اسلوبی سے حل کرنے کی راہ بھی نکل آئے۔ ممکن ہے بشرطیکہ ہم ماضی کے اندھیروں سے نکل کر حال اور مستقبل کے اجالوں میں آئیں۔
برصغیرکی دونوں کمیونٹیوں کی تاریخ ہزاروں سالوں پر مشتمل ہے، اس تاریخ میں اچھائیاں بھی ہیں اور برائیاں بھی ہیں۔ آج کے دور کا انسان اچھائیوں اور برائیوں کا ملغوبہ بنا ہوا ہے اور دوریوں اور نفرتوں کا معجون مرکب ہے آج اور آنے والے کل کا مطالبہ ہے کہ دونوں کمیونٹیوں کو قریب لایا جائے یہ کوئی انفرادی کام نہیں ہے بلکہ ایک ایسا مشترکہ کام ہے جو بڑی نیک نیتی سے ہندوستان کی دو بڑی قوموں کو ایک دوسرے کے قریب لانا چاہتا ہے اس کام کے خواہش مندوں میں اکیلا راقم الحروف نہیں بلکہ ہزاروں قلمکار، دانشور، ادیب، کمیونسٹ سیاسی کارکن ایک عرصے سے کوشاں ہیں کچھ مایوسیاں بھی سامنے آئیں کچھ امید افزا حالات بھی راہ میں ملے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ کسی فرد یا کمیونٹی کی دل آزاری کے بغیر ہندو اور مسلمانوں کو اس طرح ایک دوسرے کے قریب لایا جائے کہ دونوں کے دین دھرم کا مسئلہ پیدا نہ ہو اور دونوں کمیونٹیاں شیر و شکر بن جائیں۔ ہم نے اپنی بات کی ابتدا دونوں ملکوں کے درمیان تجارت سے کی تھی پاکستان کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ کشمیر کے ایشو میں پیش رفت کے بغیر تجارت ممکن نہیں۔ دونوں ملکوں میں ایسے ہزاروں نہیں لاکھوں انسان موجود ہیں جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری اور قربت چاہتے ہیں، ایسے لوگ اگر آگے آئیں اور خلوص دل سے کوشش کریں تو مسئلہ آسان ہو جائے گا۔