Saturday, 16 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Peeli Jacket Tehreek

Peeli Jacket Tehreek

سرمایہ دارانہ نظام کے بروکرکہتے ہیں کہ نجی ملکیت کی آزادی ہی سے دنیا میں اقتصادی ترقی ہوتی ہے، ہو سکتا ہے یہ فلسفہ جزوی طور پر درست ہو لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے بروکر کیا اس بات کا جواب دیں گے کہ دنیا کے اربوں عوام اقتصادی بدحالی کے جس عذاب سے دوچار ہیں کیا اس کی ذمے داری ان دولت مندوں پر عائد ہوتی ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے لامحدود حق ملکیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اربوں ڈالرکے مالک بن بیٹھے ہیں۔

بل گیٹس پہلے دنیا کا امیر ترین آدمی تھا پھر بوجوہ وہ آہستہ آہستہ دنیا کا دوسرا امیر ترین آدمی بن گیا۔ تازہ خبر کے مطابق فرانس کے ایک ارب پتی ارنالٹ نے بل گیٹس سے اس کا وہ اعزاز بھی چھین لیا ہے جو اس نے دنیا کے غریب عوام کے حصے کی دولت چھین کر حاصل کیا تھا۔ ارنالٹ دنیا کے امیر لوگوں کے لیے!

ارنالٹ دنیا کے امیر افراد کے لیے لگژری اشیا بنانے والی کمپنی ایل وی ایچ کا مالک ہے، بلوم برگ بلینئرز انڈکس کے مطابق ارنالٹ کے مالیاتی اثاثوں کا حجم بڑھ کر 107.6 ارب ڈالر ہوگیا ہے جو بل گیٹس کے مالیاتی اثاثوں سے 200 ملین ڈالر زیادہ ہے۔ ارنالٹ کی آمدنی میں صرف رواں سال تقریباً 39 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ دنیا کی امیر ترین شخصیات کی اس فہرست میں ایمیزون کے چیف ایگزیکٹیو چیف بینروس 125 ارب ڈالر کے مالیاتی اثاثوں کے ساتھ پہلے نمبر پر ہیں۔ 125 ارب ڈالر کے ملکیتی اثاثوں کے مالک نے سابقہ دنیا کے امیر ترین " انسان " بل گیٹس کی جگہ لے لی ہے یہ تو اول، دوم، سوم کا مسئلہ ہے۔ یہ دولت ان افراد کے پاس اس لیے جمع ہوسکی کہ سرمایہ دارانہ نظام میں لامحدود حق ملکیت کی قانونی اجازت ہے۔

ارنالٹ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا امیر انسان بن گیا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں 50 فیصد سے زیادہ انسان خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، پاکستان کا شمار ان غریب ترین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں کے 50 فیصد سے زیادہ عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جس دنیا میں ایک شخص کو 125 ارب ڈالر اپنی تحویل میں رکھنے کی قانونی اجازت ہو۔

اس دنیا میں عوام کی ایک بھاری تعداد غربت کی لکیر سے نیچے ہی زندگی گزار سکتی ہے یہ تو وہ اول دوم اور سوم مال دار ہیں جن کے اثاثے ڈکلیئرڈ ہیں جانے کتنے بل گیٹس اور ارنالٹ ایسے ارب پتی ہوں گے جن کے اثاثے بوجوہ ظاہر نہیں کیے گئے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں جو لامحدود نجی ملکیت کا حق دیا گیا ہے اس کا لازمی نتیجہ یہی ہوگا کہ دنیا کی 80 فیصد دولت 2 فیصد زمینی قذاقوں کے ہاتھوں میں آجائے گی۔

دنیا کے جو ماہرین مالیات لامحدود حق ملکیت کو جائز اور قانونی بتاتے ہیں کیا ان کو یہ علم نہیں کہ دنیا کے پسماندہ ملکوں میں رہنے والے اربوں انسان دو وقت کی روٹی سے محتاج ہیں۔ دنیا کے جن انسان دوستوں کو غربت اور امارت کے زمین آسمان کے فرق کا احساس تھا اور جو یہ بھی جانتے تھے کہ اس عذاب کی ذمے داری نجی ملکیت کے آزادانہ حق پر آتی ہے انھوں نے نجی ملکیت کا خاتمہ کردیا اور نجی ملکیت کے خاتمے کی وجہ عام آدمی کی زندگی میں خوشحالی آئی لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے دلالوں کو نجی ملکیت کا خاتمہ بہت ناگوار گزرا، اور انھوں نے سازشوں کے جال بچھا کر نجی ملکیت کے لامحدود حق کو بحال کرایا۔

لامحدود نجی ملکیت کا چند ہاتھوں میں احتجاج اربوں انسانوں کی بھوک، بیماری، بے روزگاری کا سبب بنا ہوا ہے۔ مارکس اور اینجلز وہ دو انسان تھے جنھیں لامحدود حق ملکیت کی تباہ کاریوں کا ادراک تھا سو انھوں نے اپنے ملکوں میں سوشلسٹ اکانومی کو متعارف کرایا جس میں لامحدود حق ملکیت پر پابندی لگا دی تھی اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ دولت صرف چند دولت مندوں کے ہاتھوں ہی میں جمع نہیں ہوئی بلکہ تیسرے چوتھے اور پانچویں نمبر کے نمبریوں کے ہاتھوں میں اس طرح مرکوز ہوجاتی ہے کہ دنیا کی 80 فیصد دولت صرف دو فیصد کی ملکیت بن جاتی ہے اور 98 فیصد آبادی بھوک، غربت اور بیماری کا شکار ہوجاتی ہے۔ پاکستان میں بھی دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ہوگیا ہے اور یہ ارتکاز کرپشن کی وجہ سے ہوا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی پہلی حکومت ہے جس نے لٹیروں کے خلاف ایکشن لیا ہے، اس اقدام سے اربوں کی ناجائز دولت کے مالکوں نے ایسا شور محشر برپا کر رکھا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ یہ وہ چند لوگ یا چند خاندان ہیں جنھوں نے کرپشن کے ذریعے اربوں روپے جمع کرلیے ہیں اور یہ اربوں روپے غریب عوام کی محنت کی کمائی ہے جس پر ڈاکہ ڈال کر ڈاکوؤں نے اربوں کا جینا حرام کردیا ہے اور شور محشر برپا کرکے کرپشن کے خلاف اٹھتی ہوئی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ناسمجھ اور دلال لوگوں کے ٹولے اشرافیہ زندہ باد کے نعرے لگا کر اشرافیہ کی لوٹ مار جاری رکھنے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔

مغربی میڈیا میں دیے جانے والے اعداد وشمار کے مطابق ہر سال لاکھوں انسان بھوک سے مر جاتے ہیں۔ لاکھوں انسان بیماری اور علاج سے محرومی سے جان سے جاتے ہیں۔ ہر سال لاکھوں بچے دودھ اور مناسب غذا سے محرومی کے سبب موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ لاکھوں حاملہ عورتیں غذا کی کمی اور علاج سے محرومی کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتی ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس مغربی میڈیا میں آتے ہیں جو اس سرمایہ دارانہ نظام کا حامی اور نگہبان ہے جس کی ستم ظریفی کے چند اعداد و شمار ہم نے اوپر پیش کیے ہیں کیا ظالم اور وحشی انسانوں کے اس قاتلانہ نظام کو ختم نہیں ہونا چاہیے اس کی جگہ معاشی انصاف اور سماجی مساوات پر مبنی نظام کو نہیں آنا چاہیے؟ دنیا میں سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کے خلاف سخت نفرت پائی جاتی ہے۔

اس نفرت کا منظم اظہار پیلی جیکٹ تحریک کی شکل میں دیکھا جا رہا ہے۔ مغربی ملکوں میں چلنے والی اس ابتدائی تحریک کا مقصد سرمایہ دار انہ نظام کا خاتمہ ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ غربت کے شکار ملکوں میں ابھی تک پیلی جیکٹ تحریک موجود نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کی لٹیری کلاس نے بددیانتانہ سیاست اور جمہوریت کے ذریعے پیلی جیکٹ تحریک کو پسماندہ ملکوں میں متعارف ہونے ہی نہیں دیا۔ ہمارے ملک میں طلبا تنظیمیں ہیں ٹریڈ یونینز ہیں وکلا اور مڈل کلاس کی پیشہ ورانہ تنظیمیں ہیں ان تنظیموں کی قیادت کی ذمے داری ہے کہ وہ پیلی جیکٹ تحریک کا حصہ بنیں۔