ہمارے ملک میں جو سیاسی افراتفری نظر آرہی ہے، اس کی ویسے توکئی وجوہات ہیں لیکن ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری سیاست میں ایسے نوجوانوں کے ہاتھوں میں قیادت آگئی ہے، جنھیں سیاست کی اے بی سی بھی نہیں آتی۔ چونکہ یہ نسل کسی قاعدے قانون کسی ضابطے کسی اصول کی پابند نہیں ہے اور جو اس کے دل میں آئے کرتی ہے، ایسی صورتحال میں وہی حالات پیدا ہوتے ہیں جو ہمارے ملک میں پیدا ہو گئے ہیں۔
نوآموز سیاستدانوں کا تعلق چونکہ اشرافیہ سے ہے اور 80-70 سال کی عمر میں بھی اشرافیائی سیاستدان فعال اور متحرک ہیں اس لیے سیاستدانوں کی نئی نسل کو یہ مان رہتا ہے کہ وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں کوئی انھیں پوچھنے والا نہیں۔ اس سائیکی کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک تو بڑے باپ کے بیٹے ہیں، دوسرا انتظامیہ بھی ان کا ادب کرتی ہے۔
اس سائیکی کی وجہ سے یہ سیاست "خوانوں " کی نئی نسل سینئر سیاستدانوں کے ساتھ اخلاقی اقدار کو مد نظر رکھنے کے بجائے برابری کے ساتھ پیش آتی ہے اور چینلوں پر سینئر سیاستدانوں کے بارے میں وہ زبان استعمال کرتی ہے جوقابل بیان نہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ سینئر اور ادب و آداب سے واقف سیاستدان نوجوان نسل کے اس انداز کو روکیں گے لیکن حیرت ہے کہ پرانی نسل اپنی نوجوان نسل کے اس انداز سے انجوائے کرتی ہے اور پیٹھ تھپکتی ہے۔
ہماری سیاست بے ایمانیوں سے شروع ہوتی ہے اور بے ایمانیوں پر ختم ہو تی ہے، یہی ہماری روایت ہے۔ جب آوے کا آوا ہی بگڑا ہو تو کسی ایک فرد یا جماعت پر الزام دھرنا محض زیادتی ہے۔ ہر قوم میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں لیکن جس قوم کو اپنے مستقبل کا خیال ہوتا ہے وہ اپنی غلطیوں کی اصلاح کرنے کی کوشش کرتی ہے غلطیوں پر فخر نہیں کرتی۔ اس سیاست کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ نوجوان نسل تیزی سے بگڑتی جا رہی ہے اور پدرم سلطان بود کا کلچر فروغ پاتا جا رہا ہے۔ حیرت ہے کہ ملک میں ادیب، شاعر، دانشوروں کی بہتات ہے لیکن حیرت ہوتی ہے کہ کسی جانب سے بھی اس انداز گفتگو کے خلاف آواز سنائی نہیں دیتی۔
ہمارا تعلق جس مذہب سے ہے اس میں اخلاقیات کا بڑا عمل دخل ہے لیکن وہ نسل یا تو بوڑھی ہو کر ایک کونے میں بیٹھ گئی ہے، یا اللہ کو پیاری ہو گئی ہے۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ نئی نسل کو بے لگام چھوڑ دیا جائے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس اخلاقی برائی کے خلاف مضبوط بند باندھا جائے اگر کسی قوم میں سینئر لوگ کسی وجہ سے غلط انداز کی حمایت کرتے ہیں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ نئی نسل کو بے لگام چھوڑ دیا جائے بلکہ ایسے ماحول میں اخلاقی قدروں کے ماننے والوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ان معاشرتی خرابیوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہوجائیں۔
ہمارا عمومی معاشرہ بداخلاقیوں سے اٹا ہوا ہے اور سونے پر سہاگہ یہ کہ ٹی وی سے انھیں وہ کچھ ملتا ہے جو اس میں اضافہ کرتا ہے یہ بڑی خطرناک صورت حال ہے اگر اسے کسی نہ کسی طرح روکا نہ گیا تو ہم دنیا میں ایک بداخلاق قوم کی حیثیت سے پہچانے جائیں گے اور یہ ہمارا اجتماعی المیہ ہوگا۔
کرپشن اب ہماری قومی پہچان بن گئی ہے، خاص طور پر سرکاری اداروں اور سیاستدانوں کی کرپشن نے ہمیں بحیثیت قوم ساری دنیا میں بدنام کر دیا ہے اس کا حل الزام اور جوابی الزام نہیں بلکہ اپنے ضمیرکی بیداری ہے، اگر ضمیر نام کی چیز زندہ ہے ہمارے بعض "نیکوکار" سیاستدان کہتے ہیں کہ ہم سیاست کو عبادت سمجھ کرکرتے ہیں یقیناً ایسے نیک خیالات ہمارے سیاستدانوں کی اصلاح کرسکتے ہیں لیکن اصلاح اسی وقت ہوگی جب ہم اپنی قوم و ملک سے مخلص ہوں گے ورنہ اس قسم کے "نیک خیالات" کو مذاق ہی کہا اور سمجھا جائے گا۔
بے لگام آزادی کو میڈیا کی آزادی کہا جاتا ہے اگر یہ محض الزام ہے تو کوئی بات نہیں اگر اس میں حقیقت کا پہلو بھی شامل ہے تو یہ ہمارے مستقبل کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے جس کا انسداد ابھی سے کرنے کی ضرورت ہے۔ قومیں اپنے اجتماعی اخلاق سے پہچانی جاتی ہیں اور اجتماعی اخلاق انفرادی اخلاق کا مجموعہ ہوتا ہے۔
نوجوان سیاستدانوں میں اگر اخلاقی ابتری ہے تو سینئر سیاستدانوں میں اخلاقی ابتری ہی نہیں، بددیانتی، بے ایمانی بھی بھری ہوئی ہے جب کسی سیاستدان کا باپ ناجائز کمائی سے اپنی اولاد کو ایک لگژری کار دلاتا ہے تو بیٹا باپ سے یہ سوال نہیں کرتا کہ یہ پچاس لاکھ کی لگژری کار آپ نے کیسے خریدی؟ بیٹا ایسے سوال باپ سے اس لیے نہیں کرتا کہ اسے باپ کی وجہ سے جو لگژری گاڑی ملی ہوئی ہے اس کی وجہ سے خاندان اور معاشرے میں اس کی عزت اور وقار میں اضافہ ہوتا ہے اور اس جھوٹی اور چوری کی عزت سے وہ عوام کی نظروں میں گر جاتا ہے۔
بات چلی تھی نوجوان سیاست کاروں کی طرف سے سینئر سیاست کاروں کے خلاف غلط انداز گفتگو سے۔ یہاں اس بات کا حوالہ بھی ضروری ہے کہ سینئر سیاستدانوں کا اخلاق بھی قابل احترام ہونا چاہیے، اگر باپ دو کروڑ کی کرپشن کا ارتکاب کرے گا تو یقیناً بیٹا اس سے دس گنا زیادہ کرپشن کا ارتکاب کرے گا۔ بدقسمتی سے یہ کلچر ہمارے ملک میں روز بروز مضبوط ہو رہا ہے اور ہو یہ رہا ہے کہ لالچی اور کرپٹ ذہنیت کے لوگ سیاست کو عبادت سمجھنے کے بجائے بھاری کمائی کا ذریعہ سمجھ کر اس میں حصہ لے رہے ہیں۔