اشرافیہ نے ملک کی نوے فیصد آبادی کو غلام بنائے رکھا ہے۔ غریب خاندانوں کے مردوں کو چونکہ وقت پر ڈیوٹی پر پہنچنا ہوتا ہے سو وہ منہ اندھیرے یعنی فجر سے پہلے خود بھی نیند سے بیدار ہو جاتاہے اور گھر کی عورت بچوں کو بھی بیدار کر دیتا ہے۔
اس آغاز کے بعد سارا خاندان محنت مزدوری کے لیے گھر سے نکل پڑتا ہے اور سارے دن کی محنت سے چور جب وہ گھر پہنچتا ہے تو بھوک اس کا انتظار کرتی ملتی ہے۔ یوں صبح سے شام تک سخت محنت کرنے والوں کو روکھی سوکھی روٹی نصیب ہوتی ہے۔
غربت اور امارت کو خدا کی مرضی کہہ کر اس کے ذہن میں ظلم کے اٹھنے والے طوفان کا رخ پھیر دیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ صدیوں سے چل رہا ہے اور اسے نہ روکا گیا تو اور صدیوں تک چلتا رہے گا۔ سوال یہ ہے کہ طبقہ اشرافیہ کا مفاد اسی میں ہے کہ یہ غیر منصفانہ اور ظالمانہ طریقہ کار کب تک چلتا رہے گا۔ اشرافیہ نے زندگی کے ہر شعبے پر قبضہ جما کر دنیا کے نظام کو اس طرح ترتیب دیا ہے کہ 98 فیصد عوام غربت کی چکی میں پستے رہیں۔
جب لوگ غربت اور امارت کو خدا کی مرضی خدا کا حکم کہتے ہیں تو غربت کے خلاف عوام کی جدوجہد پر پانی پھر جاتا ہے یہ رویہ دانستہ یا نادانستہ امیروں کے حق میں جاتا ہے اور طبقہ امرا منظم انداز میں اس خود ساختہ فلسفے کو اپنے طبقاتی مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے۔ عموماً غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے علم سے بے بہرہ ہوتے ہیں اس پس منظر میں ان کی غربت کے خاتمے کا کوئی لائحہ عمل نہ بتانا اور مصیبت زدہ حالات پر قناعت کرنے کا درس دینا عوام کے لیے سخت حوصلہ شکن ثابت ہوتا ہے۔
تعلیم یافتہ افراد غربت اور امارت کے مضمرات سے واقف ہوتے ہیں یہ ان کا کام ہے کہ وہ غربت اور امارت کی اصل وجہ دولت کی غیر مساویانہ تقسیم بتاتے ہوئے اس طبقاتی ظلم کے خلاف جدوجہد کی غربا کو تلقین کریں۔ اگر غریب عوام اس حقیقت سے واقف ہو جاتے ہیں تو عوام کی جدوجہد کا رخ خود بخود طبقہ امرا کے خلاف ہو جاتا ہے۔ یوں طبقاتی ظلم اور ناانصافیوں کے خلاف جدوجہد کو ترغیب ملتی ہے اور خدا اور اس کے رسول نے ہمیشہ ناانصافیوں کے خلاف جدوجہد کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
انسان بڑا ظالم ہے وہ بے تحاشا دولت کے حصول کی خاطر غریب طبقات پر مظالم ڈھاتا ہے جو محض زندہ رہنے تک اسے آرام دہ زندگی فراہم کرتی ہے اور دولت کے وہ انبار جو امیر آدمی غریبوں کا حق مار کر بناتا ہے وہ موت کے بعد دنیا ہی میں چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ اس دغا دینے والی دولت کی خاطر وہ دنیا کے غریب طبقے کی ہر خوشی چھین لیتا ہے اور ظلم دیکھیے دولت کے چند ہاتھوں میں جمع ہوجانے سے ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں انسانوں کی زندگی جہنم بن جاتی ہے۔ یاد رہے کہ یہ ظلم محض امرا کا دیا ہوا نہیں ہے بلکہ اس نظام کی دین ہے جسے ہم سرمایہ دارانہ کہتے ہیں۔
یہ ہیں وہ حالات جو سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہیں جو آج دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلا ہوا ہے سرمایہ دارانہ نظام لانے والے بھی انسان ہی تھے ساری دنیا اس نظام کے ظلم سے تباہ حال ہے اس نظام کی لوٹ مار کو ختم کرنے کے لیے بعض انسان دوست لوگوں نے سوشل ازم کے نام سے ایک منصفانہ نظام ایجاد کیا اور دنیا نے سکھ کا سانس لیا لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے حامیوں نے اس کے خلاف احمقانہ مہم چلا کر اسے اس قدر بدنام کیا کہ آخر اس سرمایہ دار دشمن نظام کو ناکام بنا دیا۔ کیا دنیا میں ایسے لوگ مر گئے ہیں کہ ہر روز ہزاروں لوگوں کو بھوک سے، بیماری سے مرتا دیکھ رہے ہیں لیکن ٹس سے مس نہیں ہو رہے ہیں۔