Wednesday, 06 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Qissa Mehangai Ka

Qissa Mehangai Ka

حکومت کی انتظامی نا اہلی نے اس کی ساری کامیابیوں کو دھندلا کر رکھ دیا ہے۔ مثال کے طور پر سبزیوں کو لے لیں۔ سبزیوں کی قیمتوں نے اس حقیقت کو آشکار کردیا ہے کہ سبزی منڈی پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔

سبزی منڈی میں عام طور پر اشیا سستی ہوتی ہیں لیکن خوردہ فروش مافیا منڈی سے شہر لاتے لاتے سبزیوں کی قیمتوں کو دگنا کردیتی ہے۔ غریب عوام چونکہ سبزی منڈی جانے کی اہلیت نہیں رکھتے لہٰذا ریڑھی والوں سے ان کی مرضی کے مطابق قیمتوں پر سبزیاں خریدتے ہیں جو چار گنا زیادہ قیمتوں پر سبزیاں بیچتے ہیں۔

عوام ان مہنگی سبزیوں کو خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ شہر میں ایک عدد پرائس کنٹرول کمیٹی موجود ہے جو درجنوں بلکہ سیکڑوں افراد پر مشتمل ہے، اس کی ذمے داری ہے کہ وہ سبزی فروشوں کا احتساب کرے کیونکہ بھاری منافع سبزی فروش اس لیے کماتے ہیں کہ انھیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ یہ بات بڑی معنی خیز ہے کہ پرائس کنٹرول کمیشن میں ایک چین بنی ہوتی ہے جو رشوت کو انتظامیہ کی اعلیٰ سطح تک ہر روز پہنچا دیتی ہے۔ سو مہنگائی کنٹرول کرنا کسی طرح ممکن ہی نہیں ہوتا۔

کراچی ڈھائی کروڑ آبادی کا شہر ہے جہاں مہنگائی کا طوفان اٹھا رہتا ہے۔ دالیں، سالن یعنی سبزیوں وغیرہ میں بھی استعمال ہوتی ہیں۔ سبزی منڈی شہر سے کافی فاصلے پر ہے شہریوں کا ہر روز منڈی جانا ممکن نہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں منافع سب سے بڑی ترغیب ہوتا ہے اور منافع کا لالچ انسان کو حیوان بنا دیتا ہے۔ پرائس کنٹرول کمیشن کے کارندے مارکیٹ ٹور لگاتے ہیں اور بھتہ یا ماہوار وصول کرکے چلے جاتے ہیں جب کوئی دکاندار متعلقہ فرد یا افراد کو بھتہ دیتا ہے تو اسے بارہ خون معاف ہو جاتے ہیں۔

غریب آدمی گوشت نہیں کھا سکتا دالیں بھی اس قدر مہنگی ہوگئی ہیں کہ وہ بھی غربا کے بس سے باہر ہوگئی ہیں۔ عمران خان بڑی بڑی لڑائیاں لڑ رہے ہیں۔ ہماری پی ڈی ایم کے لیے مہنگائی ایک موثر ایشو ہے اور وہ اس ایشو کو اگر منظم طریقے سے استعمال کرے تو مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام سڑکوں پر آسکتے ہیں اسی حوالے سے کیا ہماری حکومت عوام کو سڑکوں پر آنے سے روکنے کے لیے مہنگائی کم کرنے پر توجہ دے گی؟

اپوزیشن میں ایسے تجربے کار لوگ موجود ہیں جو برننگ ایشوزکو حکومت کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں مہنگائی ایک ناگزیر حقیقت ہے۔ عوام، حکومت کو اس لیے سپورٹ کر رہے ہیں کہ سابقہ دس سالوں میں دو پارٹیوں نے ملک کو اس طرح لوٹا کہ آج ہم زندگی کے ہر شعبے میں جوکٹھنائیاں دیکھ رہے ہیں وہ انھی کے دورحکومت کا عطیہ ہیں، عمران خان کو ماضی سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔

تاجروں کا سب سے بڑا فراڈ یہ ہے کہ وہ سیاست سے جڑگئے ہیں اور وہ جو کچھ کرتے ہیں سیاستدانوں کی خفیہ ہدایات پرکرتے ہیں۔ اصل میں بات یہ ہے کہ ماضی کی دو حکومتوں نے زندگی کے ہر شعبے سے ایسے تعلقات استوارکر لیے ہیں کہ اپوزیشن کی مرضی کے مطابق اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

یہ گٹھ جوڑ اس قدر پکا ہے کہ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں لیکن تاجروں کی تجارت پرکوئی اثر نہیں پڑتا۔ حکومت ان کمالات سے ابھی ناواقف ہے یہ اسرار ان پر آہستہ آہستہ کھلیں گے۔ مہنگائی ایک نئی شکل میں حکمرانوں کے سامنے آئے گی یہ جوکچھ ہو رہا ہے ایک گہری سازش ہے، کر دوسرے رہے ہیں نام حکومت کا بدنام ہو رہا ہے۔

انتخابات سے پہلے اگر حکومت دور اندیش ہے تو اپوزیشن کے مقابلے کے ساتھ ساتھ حکومت کے آیندہ پروگراموں کے بارے میں جانکاری حاصل کرتی ہے کہ اپوزیشن کی سازشوں کو ناکام بنانے میں آسانی ہو۔ لیکن نئی حکومت اس ممکنہ صورتحال کے بارے میں ڈارک میں رہی ہے۔ خدا جانے کتنے مخبر حکومت کے اردگرد ہیں جو ہر بات اپوزیشن تک پہنچا دیتے ہیں، جس کی وجہ سے اپوزیشن نہ صرف خفیہ معلومات سے آگاہ رہتی ہے بلکہ غلط اقدامات کو روکنے کی اہل ہوتی ہے۔

آج کل ہر ملک کی خفیہ معلومات ہوتی ہیں جو متحارب ملکوں کو فراہم کی جاتی ہیں اور ان معلومات سے دوسری جماعتیں بھرپور فائدہ اٹھاتی ہیں۔ ہر ملک میں بیوروکریسی بڑی فعال ہوتی ہے جو ملک کے خفیہ اداروں کی رپورٹس پر اپنی حکمت عملی ترتیب دیتی ہے۔ پاکستان ایک تو اندرونی ریشہ دوانیوں میں گرفتار ہے، دوم باہر سے مختلف حوالوں سے پاکستان پر اتنا دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ بعض وقت اسے اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرنا پڑ جاتا ہے۔ ہمارے حکمران طبقے کو سازشوں کے طاقتور دوستوں کا سامنا ہے۔

حکومت کی یہ بدقسمتی ہے کہ وہ نہ صرف اندرونی محاذ پر بغیر معقول تجربے کے لڑرہی ہے بلکہ سرحدوں پر ایک ایسا دشمن کھڑا ہے جس کے ذہن میں اکھنڈ بھارت کا تصور ابھی موجود ہے۔ ہم ایک پسماندہ ملک ہیں، جہاں عوام کے 90 فیصد حصے کو صرف مشکل سے دو وقت کی روٹی پرگزارا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارا ایک بڑا مسئلہ پی ڈی ایم کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ جمہوری ملکوں میں بھی حکومتیں بدلنے کا ایک دستوری طریقہ موجود ہے ہر پانچ سال بعد عام انتخابات کے ذریعے حکومت کی ری آرگنائزیشن ہوتی ہے۔

منتخب حکومت پرانی حکومت کی جگہ لے لیتی ہے اور اپنے منشور پر عمل درآمد کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن ہمارے ملک میں ہر کام کرپشن سے شروع ہوتا ہے اورکرپشن پر ختم ہوتا ہے، اس صورتحال میں حکومت کو بہت محتاط ہوکر چلنا پڑتا ہے۔

اپوزیشن پروپیگنڈے کی ماسٹر ہے اور نا تجربہ کار حکومت کو ڈرانے کے لیے ایسے ایسے بیانات داغتی ہے کہ عوام اس حوالے سے ڈبل مائنڈڈ ہو جاتے ہیں کہ آیا یہ حکومت رہے گی یا جائے گی۔ پی ڈی ایم اس حوالے سے اپنے بیانات اور میڈیا کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ حکومت اب چند دنوں کی مہمان ہے۔ اپوزیشن اتنی شدت اور سختی سے حکومت کے خلاف اسے گھر بھیجنے کا ذکر کرتی ہے کہ عام آدمی کنفیوژن کا شکار ہوکر رہ جاتا ہے۔

اسی ماہ سینیٹ کے الیکشن ہو رہے ہیں، حکومت مخالف سیاسی لوگ عوام کو دھوکا دے رہے ہیں کہ حکومت کو ہم سینیٹ کے اجلاس سے پہلے نکال باہرکریں گے۔ استعفوں، لانگ مارچ اور تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کو گرانے کی ناکام کوشش کے بعد اب وہ حکومت کے جانے کی پیشن گوئی کی مشق میں مصروف ہیں۔