Thursday, 07 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Raabte Khidmat Ke Zariye

Raabte Khidmat Ke Zariye

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پروپیگنڈا مہم اب انتہا پر پہنچ چکی ہے۔ دونوں قوتیں پروپیگنڈہ کرنے کے فن سے واقف ہیں اور عوام کو متاثر کرنے کا فن جانتی ہیں۔ جس کے پاس زیادہ وسائل ہیں، وہ اس پروپیگنڈا مہم میں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

ہم پچھلے تین برس سے پی ٹی آئی حکومت کی غیر مشروط حمایت کر رہے ہیں، اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے وہ یہ کہ 72 سال بعد ایک تیسری جماعت اقتدار میں آئی ہے۔ عمران خان نے روایتی جماعتوں کو اقتدار کے ایوان سے باہر نکال دیا۔ پاکستان میں گزشتہ سات دہائیوں کے دوران دولت کے ارتکاز نے بہت سے مسائل پیدا کیے ہیں۔ اشرافیہ کا اقتدار بہت مضبوط ہوگیا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں بھی ایک طرح کی آمریت قائم ہوچکی ہے لیکن ایک وقت آئے گا کہ یہ کارکن اشرافیہ کے جال سے نکل کر اپنے طبقاتی بھائیوں کے کندھے سے کندھا ملائے کھڑے نظر آئیں گے۔

مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور فضل الرحمن مشکل سے دوچار ہیں۔ کئی لیڈر جیلوں میں بند ہیں اور کچھ لوگوں کے قبضے سے اربوں روپے مالیت کی سرکاری زمینوں کے قبضے چھڑانے کے دعوے سامنے آرہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ بھاری بھرکم رقوم اور اثاثے کہاں سے آئے اور کیسے آئے۔ حکومت کی ذمے داری ہے کہ ایلیٹ کو اپنے اثاثے ظاہرکرنے کے لیے وقت دے اور اگر مقررہ وقت کے اندر اثاثے ڈکلیئر نہ کیے جائیں تو پھر اثاثوں کی سخت تحقیق کی جائے اور بحق سرکار ضبط کیے جائیں۔

حکومت کی طرف سے پکڑ دھکڑکا جو سلسلہ جاری ہے اس کے نتیجے میں بھاری دولت کو ملک کے اندر اور ملک کے باہر چھپانے کی کوشش ایک فطری ردعمل ہے اس ممکنہ بھاری سرمائے کو ڈھونڈ نکالنے کی سنجیدگی سے کوشش کی جائے اور ان اثاثوں کو مختلف حوالوں سے غریب شہریوں کی مدد کے لیے استعمال کیا جائے۔

عمران خان خود کو مڈل کلاس کا فرد سمجھتے ہیں تو انھیں عوام کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ اپوزیشن کا مقصد حکومت کو ڈرانا ہے تاکہ حکومت پر عوام کا اعتماد متزلزل ہو۔ حکومت بڑی حد تک اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ اناڑی بنی ہوئی ہے، اس کا پہلا فرض یہ ہے کہ غریب عوام کو یہ بتایا جائے کہ ان کی شب و روز کی حلال کمائی سے کتنے محل، کتنے پلازے، کتنی قیمتی گاڑیاں اور ملازمین کی فوج رکھی گئی ہے۔ جب عوام اپنی نظروں سے اپنی محنت کی کمائی کو ایلیٹ کے قبضے میں دیکھیں گے تو انھیں احساس ہوگا کہ انھیں کس کس طرح اورکتنے بڑے پیمانے پر لوٹا گیا پھر ان میں اپنا سرمایہ واپس لینے کا خیال پیدا ہوگا۔

یوں حکومت کے ہاتھ مضبوط ہوں گے اور وہ غریبوں کا لوٹا ہوا مال واپس حاصل کرنے میں پرعزم اور پرجوش ہوں گے، پھر انھیں کارکنوں کو تلاش کرنے کی زحمت کرنے کی ضرورت درپیش نہیں ہوگی۔ وہ عوام جو عشروں سے بھوکے پیاسے مر رہے ہیں جب انھیں معلوم ہوگا کہ ان کی محنت کی کمائی کہاں اور کس کے قبضے میں ہے تو انھیں بھوک پیاس سے نجات حاصل ہوگی اور وہ بھی باعزت زندگی گزارنے کے قابل ہو جائیں گے۔

ملک میں مہنگائی اور لوٹ مار کم نہیں ہوئی بلکہ اضافہ ہوا ہے اب مہنگائی خاص طور پر عوام کے روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں کمی کا رجحان نظر آ رہا ہے۔ عمران خان کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ ایک مضبوط اور مستحکم حکومت قائم کرنے کے لیے شہروں میں اپنی تنظیموں کا قیام ضروری ہے اور یہ تنظیمیں سیاسی نہ ہوں تاکہ اپوزیشن کو لڑائی جھگڑے کا موقع نہ مل سکے۔

یہ تنظیمیں بلاتخصیص عوام کے لوکل مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔ مثلاً پانی کی قلت عوام کا بہت بڑا مسئلہ ہے، حکومت اس حوالے سے دو طرح سے کام کرسکتی ہے ایک تو پانی سپلائی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دورکرکے دوسرا جگہ جگہ برمے کے ذریعے عوام کو پانی کے حصول کی سہولت فراہم کرکے ان برموں کا نام انصاف برما رکھا جاسکتا ہے اور اس کی نگرانی اور دیکھ بھال کی ذمے داری مقامی لوگوں کے سپرد کی جاسکتی ہے اس عمل سے مقامی عوام کا تحریک انصاف سے قریبی رابطہ ہو جائے گا جو بعد میں کام آئے گا۔

تحریک انصاف کے ایم این ایز اور ایم پی ایز عوام کی بستیوں میں جائیں اور ان کے ضروری مسائل کے حل میں ان کی مدد (مشوروں) سے کریں، تاکہ عوام کو یہ احساس ہو کہ حکومت ان کے ساتھ ہے، اگر صوبائی حکومت دوسری جماعتوں کی ہے تو اسے نہ چھیڑا جائے اگر کوئی کارکن یا علاقائی رہنما عوام کے مسائل مل جل کر حل کرنا چاہتا ہے تو اس کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جائے ایمبولینس کی سہولت فراہم کی جاسکتی ہے، جس کا نام انصاف ایمبولینس رکھا جا سکتا ہے۔