Wednesday, 06 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Rakawaten Aur Awaami Mafadat

Rakawaten Aur Awaami Mafadat

ہر جمہوری ملک میں اپوزیشن یہ سمجھتی ہے کہ حکومت اکثریت کھو چکی ہے یا کوئی ایسی بات یا تنازعے کھڑے ہو جاتے ہیں جن کا حل بات چیت کے ذریعے ممکن نہیں تو پھر اپوزیشن حکومت سے اعتماد کا ووٹ لینے کا مطالبہ کرتی ہے یا حکومت خود اعتماد کا ووٹ لے کر اپوزیشن کی تسلی کر دیتی ہے، یوں معاملہ پٹری پر آجاتا ہے۔

ہماری اپوزیشن کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ روز اول سے حکومت کو دھاندلی کی پیداوار یا سلیکٹڈ حکومت کہتی ہے۔ ہر ملک میں اپوزیشن ہو یا حکومتی ارکان وہ ایلیٹ کلاس پر مشتمل ہوتے ہیں اور ایلیٹ کی یہ روایت ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح برسر اقتدار رہنا چاہتی ہے اس کے لیے وہ ہر حربہ استعمال کرتی ہے۔

اپوزیشن نے حکومت کو مجبور کردیا اور حالات ایسے پیدا کر دیے کہ حکومت نے اعتماد کا ووٹ لینے کی حامی بھر لی اور اعتماد کے ووٹ کی تاریخ طے ہوگئی تاریخ مقررہ پر انتخابات یا اعتماد کے ووٹ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اپوزیشن کو اندازہ تھا کہ حکومت اعتماد کا ووٹ لے لے گی۔ سو اس ایونٹ کو سبوتاژ کرنے کے لیے بڑے منظم انداز میں سیاسی چال چلی لیکن حکومت نے پورے اعتماد کے ساتھ اعتماد کا ووٹ لینے کا اہتمام کیا اور اراکین پارلیمنٹ نے بڑے پرامن انداز میں اپنے اپنے ووٹ کاسٹ کیے اور تحریک انصاف نے 178 ووٹ حاصل کرکے تحریک اعتماد میں کامیابی حاصل کی۔

178ووٹ سابقہ تحریک اعتماد کے مقابلے میں زیادہ تھے جس کا مطلب یہی لیا جاتا ہے کہ سابقہ تحریک اعتماد کے مقابلے میں اس تحریک میں زیادہ عوام نے حکومت کی حمایت کی۔ لیکن ایلیٹی حکومت کے اس کھلے اور فیئر الیکشن کو ماننے کے لیے تیار نہیں اس حوالے سے جواز پیدا کرنے کے لیے ڈی چوک کو میدان جنگ بنا دیا گیا۔ تحریک انصاف کے کارکنوں پر الزام لگایا گیا کہ انھوں نے ہنگامے کرائے اور اس بہانے تحریک اعتماد کو تسلیم کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے جب کہ اس کا سرے سے کوئی جواز نہیں۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ تحریک اعتماد کی کامیابی سے اپوزیشن کو یہ خوف لاحق ہے کہ اگر حکومت کو مزید تین سال مل گئے تو وہ اتنے عوامی بھلائی کے کام کر جائے گی کہ عوام اس کے حامی ہو جائیں گے اور وہ بڑی آسانی سے اگلے الیکشن جیت جائے گی۔ اپوزیشن کوئی نہ کوئی ایسے بہانے ڈھونڈ رہی ہے کہ پی ٹی آئی کو حکومت کرنے نہ دے لیکن اعتماد کا ووٹ بہت واضح اور شفاف طریقے سے لیا گیا ہے کہ حکومت لاکھ کوشش کرے اعتماد کی تحریک کو رد نہیں کرسکتی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوامی نمایندوں نے تحریک اعتماد میں حکومت کو واضح طور پر کیوں کامیاب کرایا؟ اس کی وجہ کرپشن کی وہ داستانیں ہیں جو ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں پھیل گئی ہیں اور اس حوالے سے سابق حکمرانوں کے پاس عوام کو مطمئن کرنے کا کوئی معقول راستہ نہیں ہے۔ اور ویسے بھی لگ بھگ اربوں روپے سابق وزرا کے اکاؤنٹس میں پائے گئے جس کو میڈیا نے خوب کوریج دی۔ اپوزیشن کی کوشش تھی کہ اعتماد کی اس تحریک کو سبوتاژ کر دیا جائے اور وہ ابھی بھی اسی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔

اپوزیشن کو یہ خوف بھی لاحق ہے کہ نیب جو تحقیق کر رہی ہے، اس میں بھی وہ پھنس نہ جائے کیونکہ جو اثاثے بنائے گئے ہیں کہ انھیں قانونی ثابت کرنا سخت مشکل ہے اسی خوف کے تحت وہ کوشش کر رہی ہے کہ حکومت کو سبوتاژ کر دے۔

اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ موجودہ حکومت اقتدار کے رمز سے پوری طرح واقف نہیں جس کی وجہ سے وہ غلطیاں بھی کر رہی ہے اور مسائل بھی پیدا کر رہی ہے۔ دوسری بڑی کمزوری یہ ہے کہ ان کی میڈیا مہم بالکل ناکام ہے جب کہ اپوزیشن کے میڈیا سیل پروپیگنڈے پبلسٹی میں غیر معمولی مہارت رکھتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ عوامی ترقیاتی کام عوام کی نظروں سے اوجھل ہیں جس سے پی ٹی آئی حکومت کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے اور محنت کے ساتھ حکومت نے جو کام کیے ہیں وہ عوام کی نظروں سے اوجھل ہیں یہ اتنی بڑی کمزوری ہے جس کا نقصان اندازے سے زیادہ ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت نے کئی منصوبے تیار کیے ہیں جن پر عملدرآمد سے عوام کو بہت سہولتیں حاصل ہوسکتی ہیں اور عوام حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہوسکتے ہیں۔ بار بار کی کرپٹ حکومتوں کے بعد اب ایک مڈل کلاس پر مشتمل ایسی حکومت آئی ہے جو کرپشن سے پاک ہے اور اپوزیشن کی تلاش بسیار کے باوجود اب تک نہ عمران خان کی کوئی کرپشن سامنے لاسکی نہ اس کی حکومت کی۔ کیا ایسی حکومت کی حمایت ضروری نہیں ہے؟