ہماری لاپرواہی اور غیر ذمے داری کا عالم یہ ہے کہ ایس او پیزکی آسان شرائط پوری نہیں کرسکتے یعنی منہ کو ماسک باندھنا یا لگانا، ایک دوسرے سے چھ فٹ کا فاصلہ رکھنا۔ ان معمولی پابندیوں کی عدم تکمیل کے نتیجے میں موت کا رسک لینا۔ کیا یہ اپنے ساتھ ناانصافی نہیں ہے؟
ہمارے عوام اس قدر غیر ذمے دار ہیں کہ انھیں ایس او پیز کی پابندی کرانے کے لیے فوج لگانا پڑ رہی ہے۔ کورونا ہماری اجتماعی نااہلی کی وجہ سے اتنی تیزی سے پھیل رہا ہے کہ پورا ملک خطرے کی زد میں آ رہا ہے۔ کیا ہم اسے اپنی غیر ذمے داری کہیں یا نااہلی کہ معمولی پابندیوں سے بچنے کے لیے جان کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ان پابندیوں کو توڑنے والوں میں غیر تعلیم یافتہ لوگ ہی نہیں بلکہ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی ہیں۔
یہ ہماری اجتماعی نااہلی ہے کہ ہم معمولی پابندیوں کو پورا کرنے سے بچ کر موت کو دعوت دے رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں عموماً ایک خاندان میں ایک کمانے والا ہوتا ہے اگر اپنی لاپرواہیوں سے اس ایک کمانے والے پر کوئی مصیبت آ جاتی ہے تو پورا خاندان اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے اور اس کے نتائج کتنے بھیانک ہوتے ہیں کیا ایس او پیز کو توڑنے والوں کو اس کا اندازہ ہے؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان معمولی پابندیوں کی خلاف ورزیوں کی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہم ایک غیر ذمے دار قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔
کورونا ایک ایسی وبا ہے جس کی لپیٹ میں آنے والے کی زندگی داؤ پر لگ جاتی ہے کیا معمولی پابندیوں سے بچنے کے لیے جان کا رسک لینا عقل مندی ہے؟ ذرا اپنے پڑوسی ملک بھارت پر نظر ڈالیے کورونا سے مرنے والوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں سڑکوں پر پڑی ہوئی لاشیں اٹھانے والا کوئی نہیں ہے۔ یہ افسوس ناک حالات ایس او پیزکی خلاف ورزیوں کا نتیجہ ہیں۔ ایک ماسک، سماجی فاصلہ اتنا مہنگا پڑتا ہے کہ اسے خریدا نہیں جاسکتا؟
اس حقیقت کے علاوہ دوسری افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ ہرگھر میں اگر پانچ آدمی ہیں تو ایس او پیز پر روزانہ پچاس روپے خرچ ہوتے ہیں ایسے لوگ بھی بہت بڑی تعداد میں ہیں جو ماسک وغیرہ پر روزانہ پچاس روپے نہیں خرچ کرسکتے، ان کے لیے ماسک اور سینیٹائزر کی فراہمی ضروری ہے جس کی تقسیم کا ایک باضابطہ نظام چاہیے۔
ہمارے ملک میں ایسے ہزاروں لوگ ہیں جو ماسک کی فراہمی کا انتظام کرسکتے ہیں ایسے لوگوں کو آگے آنا چاہیے تاکہ ان لوگوں کو ماسک وغیرہ آسانی سے فراہم ہو سکیں۔ ہماری قوم میں ایسے دولت مند موجود ہیں جو اکیلے بھی یہ ذمے داری ادا کرسکتے ہیں۔ کیا ایسے لوگوں کو آگے نہیں بڑھنا چاہیے؟
اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہمارے ملک میں ایسے ماہرین موجود نہیں جو اپنی صلاحیتوں سے ویکسین تیار کرسکیں؟ اس حوالے سے خبریں یہ ہیں کہ متعلقہ شعبے کے ماہرین ویکسین بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ہماری دعا ہے کہ ان ماہرین کی کوششیں کامیاب ہوں ویکسین اتنی مہنگی ہے کہ ایک شخص ویکسین لگانے کے لیے بارہ ہزار روپے نہیں خرچ کرسکتا۔
کیا یہ ممکن ہے کہ ایسے ضرورت مندوں کو مفت ویکسین فراہم کی جائے۔ جیساکہ ہم نے نشان دہی کی ہے ہمارے ملک میں ایسے ارب پتی موجود ہیں جو اس کام میں ہاتھ بٹا سکیں۔ کم ازکم 60 سال سے زیادہ عمر والوں کو اگر ویکسین کی فراہمی ممکن بنائی جائے تو یہ زیادہ عمر کے لوگوں کی ضرورت پوری ہوسکتی ہے۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ دوست ممالک سے اور ویکسین حاصل کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ ہماری کم سے کم ضروریات پوری ہونے کا کوئی راستہ نکل سکے۔ چین وغیرہ ہماری ویکسین کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ہماری آبادی 22 کروڑ افراد کی ہے اوراتنی بڑی آبادی کی ضرورتیں بیرونی ملکوں کی مدد سے پوری نہیں ہوسکتیں۔
آج دنیا کو کورونا کا سامنا ہے ماضی میں ہیضہ، طاعون، ٹی بی جیسی بیماریوں کا سامنا رہا ہے چونکہ وقت کے ساتھ وبائی بیماریاں چلتی رہتی ہیں لہٰذا عالمی سطح پر ایسے ریسرچ سینٹروں کی ضرورت ہے جو وقت کی وباؤں کے حوالے سے ریسرچ کرکے ان وباؤں کی دوائیں تیار کرسکیں تاکہ دنیا کے عوام ان وباؤں کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہ سکیں۔ دنیا کے مال دار ملکوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اس حوالے سے پیش رفت کریں تاکہ عوام ان تباہ کن ازاروں سے بچ سکیں۔
دنیا کے کئی ملکوں نے کورونا کی ویکسین تیار کرلی ہے اور اس کا فائدہ بھی اٹھایا جا رہا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی واحد ملک اس قسم کی وباؤں پر نہ تحقیق کرسکتا ہے اور نہ اس کا تدارک کرسکتا ہے چونکہ یہ ایک مستقل فیچر ہے اس کے لیے ایک مستقل انتظام کی ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں تو اس قسم کی وباؤں کی تحقیق اور اس کی دواؤں کی تیاری ممکن ہے لیکن پسماندہ ملکوں میں اس قسم کی وباؤں کی تحقیق اور اس کی دواؤں کی تیاری مشکل ہے لہٰذا پسماندہ ملک اجتماعی طور پر یہ کام کریں تو یہ ممکنات میں سے ہے۔