Thursday, 07 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Senate Intikhabat

Senate Intikhabat

بعض وقت پارٹی دانشور دولت کے K2 سے ایسا پھسل جاتے ہیں کہ ان کی ماضی کی شناخت ختم ہو جاتی ہے اور ایک نئی شناخت ابھر کر سامنے آتی ہے جو ماضی کی قابل قدر شناخت کو ملیامیٹ کر دیتی ہے۔

سینیٹ کا الیکشن ایک ایسا پیمانہ ہے جو سیاستدانوں کی ایمانداری اور بے ایمانی کا فیصلہ کرے گا۔ سینیٹ ملک کا دوسرا بڑا ادارہ ہے جو قانون سازی میں ایک نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے اس ادارے کو ہم اپر ہاؤس کہتے ہیں ایسا ادارہ ہر جمہوری ملک میں ہوتا ہے یہ ادارہ آئینی طور پر قومی اسمبلی سے بالاتر ہوتا ہے اور نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔

اس ادارہ کے بارے میں بہت سے باتیں کی جا رہی ہیں۔ سینیٹ ہو یا قومی اسمبلی ہو یا صوبائی اسمبلیاں یہ سارے ادارے ملک کے لیے قانون سازی کرتے ہیں۔ قانون سازی ایک بہت بڑی قومی ذمے داری ہوتی ہے، اگر ان اداروں میں ایماندار لوگ آتے ہیں تو وہ ملک و قوم کے مفاد میں قانون سازی کرتے ہیں اور عوام ایسے محترم اداروں کی صدق دل سے قدرکرتے ہیں اور اس ادارے کے ارکان بھی قابل تحریم ہوتے ہیں لیکن اگر ارکان بے ایمانی کرتے ہیں تو نہ صرف ادارہ بدنام ہوجاتا ہے بلکہ ایسے رکن سینیٹ بھی بدنام ہو جاتے ہیں جو ذاتی مفاد میں قانون سازی کا حصہ بنتے ہیں۔

سینیٹ ارکان کے بارے میں یہ الزام عام ہے کہ وہ سینیٹ کے انتخابات میں اپنے ووٹ بیچتے ہیں اور چار چار کروڑ روپے اپنے ووٹ کی قیمت وصول کرتے ہیں۔ یہ بات اس لیے حیرت کی نہیں ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ہر ادارہ کرپٹ ہوتا ہے اور اپنے ووٹ کی بھرپور قیمت وصول کرتا ہے یہ جمہوریت کا وہ شاہکار ہے جو جمہوریت کو قابل شرم بنا دیتا ہے۔ پاکستان کی سینیٹ کے ارکان اپنے ووٹ کی آزادانہ فروخت کے لیے سیکریٹ بیلٹ یعنی خفیہ رائے دہی کا نظام اپنائے ہوئے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان جب سے برسر اقتدار آئے ہیں کرپشن کے خلاف سخت ترین اقدامات کر رہے ہیں۔ سینیٹ کے انتخابات میں کرپشن کو روکنے کے لیے حکومت نے اوپن بیلٹ یعنی کھلی رائے شماری کے نظام کا اعلان کیا۔ یہ اعلان اپنے ووٹ بیچنے والوں کے سر پر بم کی طرح گرا ہے اور وہ سارے سینیٹ کے امیدوار حکومت پر سخت ناراض ہیں جو اپنے ووٹ چار چار کروڑ روپوں میں بیچتے تھے، ان لوگوں نے اس محفوظ اور بے ایمانی کے امکانات کو ختم کرنے والے نظام کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک طوفان اٹھایا ہوا ہے کہ حکومت کا یہ اقدام آئین اور جمہوریت کے خلاف ہے۔

عوام کی زندگی میں انھیں قدم قدم پر اس قسم کے ناجائز کاموں کا سامنا ہے اگر عوام اس بے ایمانی اور سیاسی ہیر پھیر کو خاموشی سے قبول کرلیں گے تو ایلیٹ کو اس سے حوصلہ ملے گا وہ اور دھڑلے سے کرپشن کا ارتکاب کرے گی۔ ووٹوں کی خرید وفروخت کا چرچا اتنا ہو چکا ہے کہ اب ملک کے عوام بھی اس قابل شرم کاروبار سے پوری طرح واقف ہو چکے ہیں۔

اشرافیہ کرپشن کی دشمن حکومت کے خلاف اربوں روپے خرچ کرکے پروپیگنڈے کر رہی ہے کہ حکومت ملک کو تباہی کے راستے پر لے جا رہی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت ملک کو تباہی کی طرف جانے سے روک رہی ہے۔ موجودہ حکومت انسانوں کی حکومت ہے فرشتوں کی نہیں ہے۔ اس سے بھی غلطیاں ہو سکتی ہیں لیکن مجموعی طور پر اس کی کارکردگی ملک کے مفاد میں ہے۔

یہ بات بہت حیرت انگیز ہے کہ اس کھلی بد دیانتی کی سخت مخالفت کرنے کی بجائے ہمارے دانشور آئین اور قانون کے حوالے سے ان کی حمایت کر رہے ہیں۔ ووٹوں کی خریدوفروخت کی پبلسٹی اتنی ہوگئی ہے کہ ملک کے عوام اس ادارتی کرپشن سے بھرپور طریقے سے واقف ہو گئے ہیں۔ اس صورت حال میں اس بے ایمانی سے شروع ہونے والے اور بے ایمانی پر ختم ہونے والے عمل کی مخالفت عوام کا طبقاتی فرض ہے اور طبقاتی مظالم کا ادراک رکھنے والوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اوپن بددیانتی کی کھل کر مخالفت کریں۔