ایک لمبے پروپیگنڈے کے بعد آخر19جنوری کو اپوزیشن کا وہ مظاہرہ ہو ہی گیا جس کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ اس مظاہرے سے حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا لیکن ایسا کچھ نہ ہوا بلکہ ہوا یہ کہ پروپیگنڈے سے نصف لوگ بھی اس عظیم الشان مظاہرے میں شریک نہ ہوئے، البتہ گھن گرج کا مظاہرہ ضرور ہوا اور حکومت کو اپنی نفیس زبانوں کا نشانہ ضرور بنایا گیا۔
اس مظاہرے کی ناکامی کا ایک ثبوت یہ ملا کہ بلاول بھٹو زرداری احتجاجی مظاہرے سے غائب رہے۔ البتہ حضرت مولانا فضل الرحمن کی دھیمے لہجے میں دی جانے والی تڑیوں کا سلسلہ جاری رہا، اس مظاہرے کا حاصل مولانا کی مسکراتی ہوئی تقریر تھی۔ باقی اپوزیشن رہنما اپنی اپنی دیہاڑی پوری کرتے رہے۔
سیاستدانوں کا بنیادی مقصد یقیناً حصول اقتدار ہی ہوتا ہے لیکن جمہوریت کے زعما نے حصول اقتدار کے لیے کچھ اصول کچھ ضابطے بنا رکھے ہیں جن پر عمل کرتے ہوئے اقتدار کی منزل تک پہنچا جاتا ہے۔ ان اصولوں ان ضابطوں میں انتخابات کا انعقاد سب سے اہم ضابطہ ہے اس ضابطے کی تکمیل کے بغیر اقتدار تک نہیں پہنچا جاسکتا، لیکن ہمارے سیاستدانوں کو اتنی جلدی ہے کہ وہ انتخابات کی شرط کو پورا کرنے کے لیے تیار نہیں۔
مشکل یہ ہے کہ ماضی کی حکمرانی کے دوران ہر پارٹی نے لوٹ مار مچائی۔ ایسا لگتا ہے کہ پی ڈی ایم کی نوجوان قیادت اڑ کر وزارت عظمیٰ کی کرسی تک پہنچنا چاہتی ہے لیکن عملاً ایسا ممکن نہیں۔ عمران خان بھی جب سیاست میں آیا تو جواں سال تھا، کرکٹ کے اس ہیرو کو اقتدار کی جلدی ہونا فطری بات تھی لیکن ایک نہ دو بلکہ 22 سال تک اس ہیرو کو سیاست کے میدان میں جوتے اور چپل گھسنے پڑے نہ اس نے جلد بازی کا مظاہرہ کیا نہ فرسٹریشن کا شکار ہو کر بدزبانی کا مظاہرہ کیا۔
پاکستان کی یہ بدقسمتی اور پاکستانی عوام کی یہ جہالت ہے کہ انھیں یہ احساس ہی نہیں کہ وہ اس ملک کے اصل مالک ہیں، ان کی مرضی کے بغیر پتہ نہیں ہل سکتا۔ لیکن وہ اس قدر غیر ذمے داری بلکہ جہل کا مظاہرہ کرتے رہے کہ اپنے ان اختیارات کا استعمال بھی نہ کرسکے جو قانوناً انھیں حاصل ہیں اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اشرافیہ ہمیشہ اقتدار پر قابض رہی عوام بے چارے سیلف میڈ رعایا بنے رہے یہ ایک ایسا المیہ ہے جس کی مثال نہیں مل سکتی۔
مسلم لیگ ن کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ حصول اقتدار کی اس جنگ میں بڑی بے جگری کے ساتھ لڑتی رہی اور اس کی قیادت نے کبھی حوصلہ ہارنے کا مظاہرہ نہیں کیا، البتہ وہ جوش خطابت میں مخالفین کو بری طرح کچلتی رہی۔ جمہوری لڑائی ایک صبر طلب کام ہے اس میں کوئی شارٹ کٹ نہیں آتا۔ اسٹیبلشمنٹ کا کام یقینا سیاست ہے نہ سیاست میں مداخلت لیکن جب ملک کو افراتفری کا سامنا ہو تو صرف دو ریاستی ادارے ایسے رہ جاتے ہیں جو اس افراتفری کو روک سکتے ہیں اور انھیں روکنا چاہیے۔
ایک فوج دوسری عدلیہ۔ ہماری عدلیہ سیاست سے دور رہتی ہے اور پاکستانی سیاست اس قدر بے لگام ہے کہ کوئی شریف آدمی اس کے قریب آتے ہوئے ڈرتا ہے۔ عوام کی سادگی اور خواص یعنی اشرافیہ کی طراری نے ہماری سیاست کو ایک ناسور بنا دیا ہے۔
اس صورت حال کی ذمے داری سب سے زیادہ عوام پر آتی ہے کہ وہ سیاست کے اور اقتدار کے مالک ہوتے ہوئے ہاری بنے ہوتے ہیں اور سیاست کے کھیل میں ہاری کا کردار ادا کر رہے ہیں جس کا پورا پورا فائدہ اشرافیہ اٹھا رہی ہے اگر عوام بیدار ہوتے اور اپنے حقوق اور طاقت سے واقف ہوتے تو اشرافیہ شیر نہ بنتی۔ حالات کے مطالعے سے ایسا لگ رہا ہے کہ اگر اشرافیہ پیچھے نہیں ہٹتی اور امن و امان کا مسئلہ پیدا کرتی ہے تو پھر غیر جمہوری قوتوں کے آگے آنے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔