پاکستان تحریک انصاف کے اقتدارکی حمایت دراصل مڈل کلاس کی حمایت ہے۔ 72 سالوں سے پاکستان کی اشرافیہ باالواسطہ یا بلاواسطہ پاکستان کی سیاست اور اقتدار پر قابض ہے، اب جب ایک مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا ایماندار شخص برسر اقتدار آیا ہے تو اشرافیہ ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہی ہے۔
مچھلی ایک آبی جاندار ہے وہ صرف پانی کے اندر ہی زندہ رہ سکتی ہے لیکن انسان بھی مچھلی بن گیا ہے اس فرق کے ساتھ کہ وہ پانی کے بغیر نہیں دولت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ دولت کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ملکوں میں پائی جانے والی دولت قوم کی ہوتی ہے اور اس کے مالک بھی عوام ہی ہوتے ہیں کیونکہ یہ دولت عوام کی محنت کی کمائی سے آتی ہے۔ یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ عوام کی محنت سے کمائی ہوئی دولت کی مالک اشرافیہ بن جاتی ہے۔ یہ سلسلہ سرمایہ دارانہ نظام معیشت میں بڑی کامیابی سے چل رہا ہے جس کی وجہ سمجھنا ضروری ہے۔
سرمایہ داروں کی تعداد مشکل سے دو فیصد ہوگی جب کہ غریب عوام اور مڈل کلاس کی تعداد98 فیصد کے لگ بھگ ہے، کیا اس ناانصافی اور کھلی بے ایمانی کے خلاف 98 فیصد 2 فیصد کا حشر نشر کرسکتی ہے بلکہ 98 فیصد صرف تھوک دے تو دو فیصد اس تھوک میں غرق ہو سکتی ہے۔ اس بات سے سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست اور رکھوالے اچھی طرح واقف ہیں۔
غریب طبقات کی اس ممکنہ بغاوت سے بچنے کے لیے مختلف حوالوں سے لاکھوں محافظ بنا رکھے ہیں، اس کا جواز کسی کی طرف سے مسلح مداخلت کو بنایا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ فورسز غریب عوام کی ممکنہ بغاوت کی روک تھام کے لیے بنا رکھی ہیں اور ظلم یہ ہے کہ ان عمال کو جو تنخواہ یا اجرت دی جاتی ہے وہ بھی دراصل عوام کا پیسہ ہوتا ہے جو مختلف ٹیکسوں کے حوالے سے غریب عوام سے وصول کیا جاتا ہے اور بے چاری عوام کو یہ تک پتا نہیں چلتا کہ ان کی محنت کی کمائی کہاں اور کیوں استعمال ہوتی ہے یہ غریبوں کے استحصال کا ایک منظم طریقہ ہے۔
اس حوالے سے یہ بات بڑی اہم بات یہ ہے کہ اشرافیہ کا خرچ اس کی مجموعی دولت کا دو فیصد سے کم ہوتا ہے باقی 98 فیصد بینکوں میں رہتی ہے جہاں یہ دولت دوبارہ کے لیے استعمال ہوتی ہے اور یوں عوام کا پیسہ اشرافیہ اپنی رقم بڑھانے کے لیے (منافع کی شکل میں) استعمال ہوتا ہے۔
ہمارے جیسے غریب ملک میں ہزاروں ارب پتی ہیں جو عوام کی محنت کی کمائی پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں، جس کا سوائے بزنز کے ذریعے ووٹ میں اضافے کے کوئی اور کام نہیں ہے۔ یہ ایسا کھلا ظلم ہے جس سے غریب طبقات پوری طرح واقف نہیں جو لوگ یا جو جماعتیں اس ظلم کو سمجھتی ہیں وہ یا تو بوجوہ خاموش ہیں یا پھر اپنا منہ بند کیے بیٹھے ہیں۔
ہر ملک میں انتظام اور امن برقرار رکھنے کے نام پر جو مسلح تنظیمیں موجود ہیں، وہ حقیقت میں سرمایہ داروں اور ان کے سرمائے کی حفاظت کا فرض ادا کرتی ہیں۔ عام آدمی اس سازشی حکمت عملی سے واقف تک نہیں ہوتا۔ یہ ایک ایسا منظم اور فریبی سلسلہ ہے جس کی حقیقت سے عوام واقف ہی نہیں۔
ہر سال میڈیا میں دنیا کے ارب پتیوں کی فہرست اور ان کے قبضے میں موجود سرمائے کی تفصیل پیش کی جاتی ہے، کوئی سوال کرنے والا نہیں کہ یہ سرمایہ کہاں سے آیا؟ کیسے آیا اور اس کا مصرف کیا ہے عام آدمی میں تو اتنا شعور نہیں کہ وہ ان حقائق کو سمجھتا ہو، افسوس کی بات یہ ہے کہ پڑھا لکھا اور باشعور طبقہ ہے جو ان حقائق کو سمجھتا ہے وہ بھی منہ بند کیے بیٹھا رہتا ہے۔ میڈیا ایک ایسا ذریعہ ہے جو عوام میں طبقاتی شعور پیدا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے لیکن یہاں بھی طبقاتی شعور کی کمی ہے۔
دنیا کے جید دانشور اگر ان طبقاتی تضادات اور غربت اور امارت کے اسرار سے عوام میں بیداری پیدا کریں تو دنیا سے اس طبقاتی ظلم اور ناانصافیوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام نے ہر شخص کو جس میں مڈل کلاس بھی شامل ہے "منی ریس" میں ایسے جکڑ دیا ہے کہ کوئی ان طبقاتی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانا ہی نہیں چاہتا۔
اس طاقتور نظام کو ختم کرکے ایک منصفانہ نظام لانے کی ضرورت ہے۔ اشرافیہ اچھی طرح جانتی ہے کہ غریب طبقات اگر منظم اور باشعور ہوگئے تو دنوں کے اندر لٹیروں کا خاتمہ ہو سکتا ہے، سو اس ممکنہ حشر سے سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالے بچنے کے لیے جہاں عوام کی طاقت کو توڑنے کے لیے انھیں درجنوں حصوں میں بانٹ رکھا ہے وہیں ملکی انتظام امن و امان کی بحالی کے نام پر جو مسلح تنظیمیں بنا رکھی ہیں، ان سے عام آدمی اس قدر خوفزدہ رہتا ہے کہ سر اٹھانے کی ہمت نہیں کر پاتا۔ طبقاتی نظام ایک المیہ ہے اس المیے سے نجات حاصل کرنے کے لیے سیاسی قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہمارے ملک میں جو سیاسی محاذ آرائی ہو رہی ہے وہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے عوام کو مختلف پارٹیوں کے حوالے سے بانٹ کر رکھا گیا ہے۔ منطقی طور پر عوام میں اتحاد پیدا کرنا، ان کے درمیان تضادات کو ختم کرنا، عوام دوست سیاسی جماعتوں کا فرض ہوتا ہے لیکن ہمارے ملک میں سیاسی جماعتیں متحارب ہیں اور غریب آدمی بھی بٹے ہوئے ہیں۔