Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Siyasatdan Aur Qaumi Mafad

Siyasatdan Aur Qaumi Mafad

دنیا کے جمہوری ملکوں میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان اختلافات ایک روایتی کلچرکے طور پر موجود رہتے ہیں لیکن یہ اختلافات ایک اخلاقی دائرہ کار میں ہوتے ہیں اور قومی مفادات کے تابع ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان نہ روایتی رہے ہیں نہ قومی مفادات کے تابع رہے ہیں۔

اس کے برخلاف ایسا لگتا ہے کہ یہ قبائلی عداوتیں ہیں جن کا جمہوری کلچر سے کوئی تعلق نہیں، ویسے تو یہ کلچر بہت پرانا ہے لیکن (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی جب سے حزب اختلاف میں آئی ہیں دونوں طاقتوں کے درمیان تعلقات قبائلی دشمنی کا رنگ لیے ہوئے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری اپوزیشن بہت واضح طور پر اور بار بار یہ کہہ رہی ہے کہ ہمارا اولین مقصد عمران حکومت کو گرانا ہے۔ جب بات اتنی سیدھی اور واضح ہو تو روایتی جمہوری حزب اختلاف کا کردار ختم ہوجاتا ہے اور قبائلی دشمنی کا تاثر مضبوط ہو جاتا ہے جو ایک انتہائی افسوسناک روایت ہے۔

اس کلچرکا ایک پس منظر یہ ہے کہ ہماری دو جماعتوں پر مشتمل حزب اختلاف 10 سال سے اقتدار میں رہنے کے بعد اس سائیکی کا شکار ہوگئی ہے کہ اس کا کام صرف اقتدار میں رہنا ہے۔ اس کے علاوہ چونکہ ان دونوں جماعتوں میں قیادت فیوڈل ذہنیت کی ہے لہٰذا یہ قائدین جمہوری قدروں سے لاعلم اور لاتعلق ہیں۔

دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ نیب نے اپوزیشن کی ان دونوں جماعتوں کے خلاف کڑے احتساب کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اس کی وجہ ہماری اپوزیشن نفسیاتی عوامل کا بھی شکار ہوکر رہ گئی ہے۔ میڈیا میں لگا تار کرپشن کے حوالے سے ان دونوں جماعتوں کے خلاف جو خبریں آ رہی ہیں، ان خبروں نے بھی اس اپوزیشن کو ذہنی بیمار بنا دیا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ان دونوں جماعتوں نے اپنے دور حکومت میں 24 ہزار ارب ڈالرکا جو قرض چھوڑا تھا، اس کے بارے میں بھی اپوزیشن کو یہ یقین تھا کہ موجودہ حکومت اس میں پھنس جائے گی نکل نہیں پائے گی لیکن حکومت نے بڑی مہارت سے اسے کنٹرول کرلیا ہے۔ جس کی وجہ اپوزیشن میں ایک مایوسی کی کیفیت پیدا ہونا فطری ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر جمہوریت کے نام لیوا جمہوری اصولوں پر چلیں تو اس قسم کے حالات پیدا ہی نہیں ہوسکتے۔ جمہوریت میں الیکشن جیتنے والی جماعت کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اگلے پانچ سال تک برسر اقتدار رہے لیکن ہماری اپوزیشن جس نے پانچ سال برسر اقتدار رہ کر ایک تاریخی کارنامہ انجام دیا تھا۔

اس نے عمران حکومت کے اقتدار میں آتے ہی اس کے خلاف حکومت گراؤ مہم کا آغازکردیا ہے یہ نہ صرف جمہوریت کی نفی ہے بلکہ ایک ایسی روایت کا آغاز ہے، جس پر عمل پیرا ہوا جائے تو ملک ایک شدید انارکی کا شکار ہوسکتا ہے ہماری اپوزیشن اب جن مایوس کن حالات سے دوچار ہے اس سے نکلنے کا کوئی جمہوری طریقہ نظر نہیں آتا صرف انارکی ہی سے اپوزیشن حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرسکتی ہے اور حالات سے اندازہ ہو رہا ہے کہ اپوزیشن اسی راہ پر جانے کے لیے کوشاں ہے۔

ہمارا ملک اور اس میں رہنے والے 22 کروڑ عوام قیام پاکستان کے بعد 72 سال کا بڑا حصہ یا تو فوجی آمریت میں گزار چکے ہیں یا پھر اشرافیائی جمہوریت میں جو عملاً فوجی آمریت سے بدتر ہوتی ہے۔ اس بد تر صورتحال کا تقاضا تو یہ تھا کہ ملک میں پہلی بار قائم ہونے والی مڈل کلاس حکومت کوکام کرنے دیا جائے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اپوزیشن حکومت کے لیے مستقل مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ یہ تو حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ عوام اپوزیشن کے ساتھ نہیں ہیں، مٹھی بھر "کارکنوں" کو لے کر وہ کوئی بڑی مہم جوئی نہیں کرسکتی ورنہ آج ملک انارکی کا شکار ہوچکا ہوتا۔

اس وقت ملک بھارتی جارحیت کی زد میں ہے، ملک کو ہر قیمت پر متحد رہنے کی ضرورت ہے اور ہنگامہ آرائی کی سیاست سے نہ کوئی سیاسی فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں نہ حکومت کو کوئی نقصان پہنچایا جاسکتا ہے، پھر بھی اپوزیشن کی جو دو جماعتیں پر مشتمل ہے۔

یہ کوشش ہے کہ حکومت کو بدنام کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں ہنگامہ جاری رکھا جائے اور اخباری بیانات اور پریس کانفرنسوں کے ذریعے حکومت کے خلاف مہم جاری رکھی جائے، یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ملک میں قائم پہلی کرپشن سے پاکیزہ حکومت کے خلاف وہ جماعتیں "تحریک" چلا رہی ہیں جو گلے گلے تک کرپشن میں دھنسی ہوئی ہیں۔ کسی حکومت کی حمایت اگر غیر منطقی طور پر کی جائے تو یہ بددیانتی ہوگی لیکن اگر حکومت کی حمایت حالات اور وقت کا تقاضا ہے تو ایسی حمایت سے گریز سیاسی اور صحافتی بددیانتی ہی کہلا سکتی ہے۔

ہماری اپوزیشن کو یہ دکھ کھائے جا رہا ہے کہ حکومت نے ایسے بد ترین کرائسس سے باہر نکل رہی ہے جو عام طور پر ممکن نہیں ہے، یہ درست ہے کہ بھارتی جارحیت کے دوران تمام ملک ایک پیج پر ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان حالات میں بھی ہماری اپوزیشن حکومت پر تنقید کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔

بھارت اس وقت ننگی جارحیت پر اترا ہوا ہے اور برصغیر کو جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ایسی نازک صورتحال میں اگر نام نہاد اپوزیشن حکومت پر تنقید برائے تنقید کے فارمولے پر چلتی ہے تو سوائے اس کے کوئی نقصان نہیں ہوگا کہ حکومت کی کم جمہوریت کی زیادہ بدنامی ہوگی، اس وقت شدید ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کو پس پشت ڈال کر صرف قومی مفاد کو پیش نظر رکھیں۔