ایک طویل عرصے بعد طلبا یونینز کو بحال کرنے کی خبریں میڈیا کی زینت بن رہی ہیں، بحث یہ چل رہی ہے کہ طلبا یونینز کو سابقہ دور کی یونینز کی طرح مکمل آزادی کے ساتھ بحال کیا جائے یا کنٹرولڈ یونینز کی طرح بحال کیا جائے؟
اس حوالے سے بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی میں طلبا یونینز ہی نہیں سیاسی جماعتیں اور ٹریڈ یونینز کے علاوہ وکلا اور ڈاکٹروں کی تنظیمیں بھی دائیں اور بائیں کی حیثیت سے جانی جاتی تھیں۔ یعنی ترقی پسند اور رجعت پسند، یہ سلسلہ قیام پاکستان کے بعد سے یونینز کی موجودگی تک چلتا رہا اور طلبا یونینز بھی دائیں اور بائیں کے حوالے سے ہی جانی جاتی تھیں۔ طلبا یونینز پر پابندی کے بعد چونکہ یونینز ہی باقی نہیں رہیں لہٰذا یہ پہچان بھی ختم ہوگئی!
پہلے یہ بات تسلیم کی جانی چاہیے کہ طلبا اسکول کالج یا یونیورسٹیز کیوں جاتے ہیں؟ ظاہر ہے اس کا جواب یہی ہوسکتا ہے کہ حصول علم کے لیے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ماضی میں جب طلبا یونینز بحال تھیں یہ مقصد پورا ہورہا تھا؟ اس کا جواب بڑی حد تک مایوس کن ہے۔ طلبا اپنی تعلیم سے لاتعلق ہوکر دائیں اور بائیں کی سیاست میں الجھے رہتے تھے جس سے تعلیمی نقصان لازمی تھا۔
بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ طلبا بڑی حد تک سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں کے ہاتھوں میں کھیلتے تھے جس کا نتیجہ مار پیٹ، سرپٹھول کی صورت میں نکلتا تھا۔ طلبا یونینز اپنی آزاد حیثیت کھوچکے تھے اسی صورت حال کے دوران یونینز پر پابندی لگی یا اس صورت حال کی وجہ سے طلبا یونینز پر پابندی لگی۔
صورت حال اتنی ابتری تک پہنچ چکی تھی کہ کالج اور یونیورسٹیز طلبا کے اسلحے کے گودام بن گئے تھے۔ بدقسمتی ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ طلبا کا زیادہ وقت غیر نصابی سرگرمیوں میں گزررہا تھا۔ تھانے اور جیل ان کے گھر آنگن بن گئے تھے۔ طلبا کی یہ تقسیم حریف طلبا تک محدود نہ تھی بلکہ اساتذہ حتیٰ کہ اسٹاف تک اس تقسیم کا شکار تھے۔
سوال یہ ہے کہ کیا طلبا یونینز کی آزادی کا مطلب یہ ہی ہے۔ ہم نے نشان دہی کی ہے کہ اب طلبا یونینز کی بحالی کے بعد پھر طلبا کو سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھایا جائے گا یا انھیں یکسوئی سے تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ طلبا یونینز پر ابھی کچھ پابندی لگانے کی باتیں میڈیا میں آئی ہیں تو ایک طوفان اٹھانے کی کوشش کی جارہی جو انتہائی بچکانہ حرکت ہے جب حقیقت سامنے آئے گی تو اس کا جائزہ لیا جائے گا۔
ماضی کا سیاسی سٹ اپ اور دائیں اور بائیں کی شناخت ختم ہوچکی ہے۔ اب لٹیرے گروہوں کے درمیان شناخت کا مسئلہ سامنے ہے اور سیاست ان ہی لٹیرے گروہوں کے درمیان جاری ہے۔ ایسی صورت حال میں طلبا میں دائیں اور بائیں کی سیاست ایک خواب سے زیادہ نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ صور ت حال پیدا کیسے ہوتی ہے، ہماری سیاست پر لیٹرے طبقات کا قبض ہوگئے ہیں اور ان کا مقصد لوٹ مار کے علاوہ کچھ نہیں خاص طور پر پچھلے دس سالوں میں جو سیاست پروان چڑھی ہے، وہ سر سے پیر تک لوٹ مار پر مبنی ہے۔
سیاسی جماعت عموماً اور بڑی سیاسی جماعتیں خصوصاً کرنسی کی سیاست کررہی ہیں۔ ایماندار اور اصول پرست طلبا تنظیمیں اور طلبا رہنماؤں نے اس گند سے بچنے کے لیے سیاست ہی سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے۔ اب میدان میں صرف وہ حکومتیں رہ گئے ہیں جو طلبا کے مسائل پر متحرک نہیں رہتے بلکہ سیاسی جماعتوں کے طلبا بجٹ پر متحرک رہتے ہیں۔
طلبا یونینز کی بحالی کی خبروں کے ساتھ ہی لٹیرے گروہ تیزی سے بحال ہونا شروع ہوگئے ہیں، اگر جینوئن اور ایماندار طلبا قیادت آگے نہ آئی اور مشکل حالات سے گھبرا کر گوشہ نشین ہوگئی تو موقع پرست قیادت کو طلبا تنظیموں پر قبضہ کرنے کا پورا پورا موقع ملے گا اور طلبا تنظیمیں دائیں بائیں کے بجائے کرپٹ سیاسی جماعتوں کے حوالے سے پہچانی جائیں گی۔
پاکستان ایک انتہائی حوصلہ شکن حالات سے گزررہا ہے۔ ہر طرف کرپشن کا دور دورہ ہے، جینوئن اور ایماندار لوگ اپنے آپ کو گندہ کرنے کے بجائے طلبا تنظیموں ہی سے دور ہوگئے ہیں، ایسے مایوس کن حالات میں اس قوم وملک کی بہتری چاہنے والوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اپنی صفوں کو درست کریں۔
ماضی میں NSF طلبا میں بہت فعال رہی ہے۔ طلبا NSF پر پورا اعتماد کرتے تھے اگرچہ کہ NSF بھی پابندیوں کی زد میں ہے لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان طلبا تنظیموں کو بحال کرنے میں سنجیدہ ہیں۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ اگر طلبا تنظیمیں بحال ہوئیں تو حکومت بھی اپنی طلبا نتظیم انصاف اسٹوڈنٹ فیڈریشن یا یونین کے نام سے کھڑی کرسکتی ہے، یہ اس کا حق ہے لیکن بہتر یہ ہوگا کہ حکومت طلبا سیاست سے دور رہے اور اپنی ساری توجہ بلا امتیاز تعلیمی ترقی خصوصاً سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ترقی کے لیے وقف کردے۔
منفی فکر کی طلبا تنظیمیں جن کے پاس وسائل کی بھرمار ہے اور لاتعداد کارکن موجود ہیں، ایک دم سے یلغار کرکے طلبا تنظموں پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں گے، اس منفی صورت حال سے بچنے کے لیے جینوئن طلباکو آگے آکر ان کی صفیں درست کرنا چاہیے، خاص طور پر بائیں بازو کی تنظیموں کو خاموشی سے طلبا سے رابطے بڑھاکر ان کا اعتماد حاصل کرنا چاہیے۔