یہ بڑی خوشی اور حیرت کی بات ہے کہ ہمارے سیاست دان، مزدوروں کا نام لے رہے ہیں اور ان کے مسائل حل کرنے یا کرانے کی بات کر رہے ہیں۔ پاکستان میں مزدور طبقہ سرمایہ داروں، صنعتکاروں کے غلاموں کی طرح زندگی گزار رہا ہے۔
ہمارے سیاست دان اب عوام سے مایوس ہوکر مزدور طبقے کی طرف آرہے ہیں۔ مقصد خواہ کچھ بھی ہو مزدوروں کے مسائل کی بات کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اشرافیہ کو مزدوروں کے مسائل پر بات کرنے سے پہلے اس بات کی تحقیق ضروری ہے کہ قیام پاکستان کے بعد کس حکومت نے مزدوروں پر کتنے ظلم کیے تاکہ عوام اور مزدوروں کو اندازہ ہو سکے کہ مزدوروں پر کس حکومت کے دوران کس قدر ظلم ہوا۔
مزدوروں پر مظالم ہماری حکومتوں ہی نے نہیں کیے بلکہ سامراجی طاقتوں نے بھی مزدوروں پر ظلم ڈھانے میں قابل نفرت کردار ادا کیا۔ جب دنیا میں خصوصاً پسماندہ ملکوں میں سوشل ازم مقبول ہونے لگا تو امریکی سرکار کو بہت تشویش شروع ہوئی، اس خطرے پر قابو پانے کے لیے امریکا نے پسماندہ ملکوں کو بھاری امداد دینی شروع کی یہ دور ایوب خان کا تھا امریکی سامراج نے امداد کے ساتھ یہ شرط بھی لگا دی کہ مزدوروں کی ٹریڈ یونین اور ترقی پسند طاقتوں کوکچل دیا جائے۔
اس حکم کی تعمیل میں مزدوروں اور ترقی پسند سیاسی کارکنوں کی بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ شروع ہوئی، ہزاروں کی تعداد میں مزدوروں اور ترقی پسند سیاسی کارکنوں کو جیلوں میں بند کردیا گیا۔
مزدوروں کے استحصال کا عالم یہ تھا کہ مالکان نے اپنے کارخانوں اور ملوں میں جیلیں بنائیں اور مزدوروں کو جرم بے گناہی پر سزائیں دے کر نجی جیلوں میں بند کردیا جاتا۔ اس بد ترین صورتحال سے مزدوروں میں سخت بے چینی پھیل گئی اور ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
اسی دوران مزدوروں کے رہنما حسن ناصر کو لاہور کے بدنام زمانہ قلعہ میں اذیتیں دے کر شہید کر دیا گیا۔ ایوب خان حکومت میں پاکستان کے ترقی پسند کارکنوں کے خلاف شدید انتقامی کارروائیاں کی جاتی رہیں یوں حکومت کے خلاف عوام خصوصاً مزدور طبقے میں سخت بے چینی اور اشتعال پھیل گیا اور ہڑتالوں کا سلسلہ چل پڑا۔ ایوب خان کے خلاف تحریک اتنی بڑھی کہ ان کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔
یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالا اور ایوب خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مزدور طبقے کے خلاف ظلم کا سلسلہ شروع کیا۔ غیر سول عدالتیں قائم کی گئیں اور سرسری سماعت کے بعد لمبی لمبی سزائیں دے کر جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ مزدوروں کے ساتھ ساتھ طالب علموں کو بھی سزائیں دلوا کر جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔ اس دور میں این ایس ایف طلبا کی مقبول تنظیم تھی، این ایس ایف دو دھڑوں میں بٹ گئی تھی۔ جیل میں طلبا کے لیے ایک علیحدہ بیرک دے دی گئی تھی، طلبا اس بیرک میں آزادی کے ساتھ رہتے تھے جیل کا یہ بلاک پکنک پوائنٹ بنا ہوا تھا۔
سب سے زیادہ سختیاں مزدوروں پر ہوتی تھیں آہستہ آہستہ مزدور بھی اس خوف سے نکلنے لگے اور پھر یہ ہوا کہ جیل میں کتابیں بالخصوص ماؤزے تنگ کی ریڈ بک بڑی تعداد میں آنے لگیں اور مزدور ٹکڑیوں میں بٹ کر لال کتاب کا مطالعہ کرنے لگے۔ چونکہ مزدور اور طلبا اب خوف کے حصار سے باہر آگئے تھے سو جیل میں بریانی کی دیگیں آنے لگیں اور ایک لمبا دسترخوان بچھا دیا جاتا، مزدور اور طلبا اس دسترخوان پر اکٹھے بیٹھ کر کھاتے تھے۔ جیل سپرنٹنڈنٹ ہر روز اس بیرک میں آکر طلبا اور مزدوروں کی خیریت دریافت کرتے تھے اور طلبا کی ضرورت کی چیزیں فراہم کی جاتی تھیں۔
ہم لوگوں کو ایک سہولت یہ حاصل تھی کہ ایریٹیریا کے تین کمانڈوز کو بی کلاس ملی ہوئی تھی ہم سب ناشتے کے بعد اریٹیریا کے دوستوں کے بی کلاس بیرک میں جمع ہوجاتے تھے اور حالات حاضرہ پر خوب بحث اور تبصرے ہوتے تھے۔ چونکہ مزدور اور طلبا بڑی تعداد میں جیل میں تھے لہٰذا جیل کا ماحول بدل گیا تھا خوف نام کی کوئی چیز موجود نہ تھی طلبا اور مزدور رہنما ماؤزے تنگ کی ریڈ بک لے کر چار چار کی ٹکڑیوں میں بیٹھ جاتے اور سیاست حاضرہ پر تبصرے اور بحث کا سلسلہ چل پڑتا۔
چونکہ طلبا اور مزدوروں کی سزائیں مختلف تھیں لہٰذا جس کی سزا پوری ہوجاتی تھی وہ رہا ہو جاتا۔ ہماری سزا بھی پوری ہوگئی، سو ہم بھی رہا ہوگئے۔ جیل کے گیٹ پر عابد زبیری ہمیں لینے کے لیے موجود تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ ملوں اور کارخانوں میں مالکان نے ظلم کی انتہا کردی تھی۔ ہم جیل سے جب ریلیز ہوئے تو معراج محمد خان سے ملاقات ہوئی، بھٹو صاحب اس زمانے میں عوامی مسائل پر اخباری بیانات دیا کرتے تھے۔
سو ہم معراج محمد خان کے ساتھ کلفٹن بھٹو کے گھر پہنچ گئے اور مزدوروں پر ہونے والے ظلم سے انھیں آگاہ کیا اور درخواست کی کہ وہ سائٹ ایریا چل کر مزدوروں سے ملاقات کریں اس سے مزدوروں کو حوصلہ ملے گا اور مالکان کی زیادتیوں میں کمی آئے گی۔ لیکن بھٹو صاحب سائٹ جاکر مزدوروں سے ملنے پر تیار نہ ہوئے یہ کہا کہ میں مزدوروں پر ہونے والے ظلم کے خلاف ایک اخباری بیان جاری کردوں گا۔
عثمان بلوچ، شاہ رضا خان اور ہم تین افراد کا ایک گروپ تھا جو مزدور تحریک کوکنٹرول کرتا تھا۔ سائٹ میں متحدہ مزدور فیڈریشن کے نام سے ایک تنظیم بنائی گئی تھی جو تیزی سے مزدوروں میں مقبول ہوئی ادھر لانڈھی کورنگی کے صنعتی علاقے میں لیبر آرگنائزنگ کمیٹی کے نام سے ایک تنظیم بنائی گئی جو لانڈھی کورنگی کے مزدوروں کو منظم کرتی تھی صرف یہ دو تنظیمیں تھیں جو کراچی کے مزدوروں کی نمایندگی کرتی تھیں۔