Wednesday, 06 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Wirasti Hukmarani Ka Culture

Wirasti Hukmarani Ka Culture

ہر ملک ہر معاشرے میں مختلف طبقات ہوتے ہیں، ان طبقات میں سب سے زیادہ تعداد غریب طبقات کی ہوتی ہے بھوک، پیاس، علم سے محرومی یہ وہ کمزوریاں ہیں، جو غریب طبقات کی زندگی کا حصہ بنے رہتے ہیں۔ غریب طبقات کی اکثریت ان عذابوں کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیتی ہے۔

امیر طبقات اس دھوکے کو مضبوط کرنے کے لیے مندروں، مسجدوں، گوردواروں اور دوسری عبادت گاہوں میں اس فلسفے کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، یوں یہ طبقات غربت اور غربت کے ذمے دار طبقات کے خلاف لڑنے کے بجائے اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں، یوں ہر ملک میں طبقاتی سماج مضبوط ہوتا ہے۔ غریب، غربت کو قسمت کا لکھا سمجھ کر مطمئن ہو جاتا ہے اور امیر غریبوں کی اس کمزوری کو اپنے طبقاتی مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یہ فلسفہ یہ نظام جسے مالدار طبقات کی حمایت حاصل ہوتی ہے مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے۔

یہ غربت صدیوں سے غریب کا مقدر بنا دی گئی ہے۔ یوں زندگی کی گاڑی ان مفروضوں پر گھسٹتی چلی جاتی ہے یہ سلسلہ صدیوں سے چل رہا ہے اور اگر عوام میں طبقاتی شعور پیدا نہ کیا گیا تو صدیوں تک چلتا رہے گا۔ یہ وہ تلخ حقائق ہیں جن کا شکار ملک کی آبادی کا 98 فیصد حصہ ہوتا آ رہا ہے یہ کوئی معلق فلسفہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک منظم نظام سرمایہ دارانہ ہے۔ نظام کے خلاف غریب عوام بغاوت کیوں نہیں کرتے؟ یہ ایک فطری سوال ہے جس کا جواب تلاش کیا جانا چاہیے۔

جن ملکوں میں شاعر، ادیب، فنکار وغیرہ متحرک ہوتے ہیں، ان ملکوں میں یہ حضرات اپنے قلم کو طبقاتی بیداری پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ تقسیم ہند سے پہلے اورکچھ عرصہ بعد تک طبقاتی مسائل کو شاعر، ادیب، مفکر استعمال کرتے رہے، اس کے بعد ایسا لگتا ہے یہ حضرات اپنی ذمے داری سے بری الذمہ ہوگئے اب نہ طبقاتی ادب لکھا جاتا ہے نہ طبقاتی شاعری، ہر طرف اس حوالے سے ایک سناٹا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا غربت ختم ہوگئی ہے؟ ایسی بات نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ لکھاریوں کی کوئی ایسی تنظیم نہیں ہے جو لکھاریوں کو ایک پلیٹ فارم پر لا سکے دوسری طرف غریب عوام اب ان شدید مسائل سے دوچار ہیں جو ماضی میں موجود تھے۔

ماضی میں قلم کار بھی تقسیم کا شکار نہ تھے ہندو، مسلمان، سکھ عیسائی سب طبقاتی نظام کے خلاف تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ تعلیم یافتہ لوگ ہی نہیں صرف اردو پڑھنے کی قابلیت رکھنے والے لوگ بھی ناول، افسانے پڑھنے کے شوقین تھے۔ عوام کے اس ذوق کے پیش نظر جگہ جگہ کیبن لائبریریز قائم ہوگئی تھیں جہاں معمولی کرائے پر کتابیں دی جاتی تھیں ان کیبن لائبریریوں کی وجہ سے بھی عوام میں ادب پڑھنے کا شوق پیدا ہوا، یوں ادب گھر گھر تک پہنچ گیا۔ کرشن چندر، منٹو جیسے ادیبوں سے عوام کا کتابوں کے ذریعہ ایک رشتہ استوار ہوا، اس دور کے لکھاری عموماً ترقی پسند تھے، ان کی اپروچ ترقی پسندانہ تھی، طبقاتی نظام کے خلاف ماضی کے ادیب اور شاعر بھرپور طریقے سے لکھتے تھے اس ادب نے عوام میں طبقاتی شعور پیدا کیا۔ وہ طبقاتی نظام کو سمجھنے کے قابل ہوئے۔

اس حوالے سے مایوسی کی بات یہ تھی کہ اہل سیاست کی اکثریت ترقی پسند فلسفوں سے لاتعلق تھی۔ صرف دو جماعتیں نیشنل عوامی پارٹی اور عوامی لیگ ترقی پسند فکر کی حامل تھیں باقی جماعتوں پر وڈیروں، جاگیرداروں کا راج تھا۔ اس وجہ سے سیاسی حوالوں سے عوام میں بیداری کا فقدان تھا، عام آدمی زیادہ تر سیاست سے لاتعلق اپنی دنیا میں مگن تھا۔ جلسے جلوسوں کی سیاست کی وجہ سے کسی حد تک عام آدمی متحرک رہتا تھا۔

ہمارا سب سے بڑا مسئلہ سیاسی جماعتوں پر ایلیٹ کا قبضہ تھا جو وقت کے ساتھ بڑھتا گیا۔ جاگیردار اور نواب، سرمایہ دار سیاست پر قابض تھے جس کی وجہ سے حکمرانی پر بھی ان کا قبضہ تھا۔ ملکی سیاست میں ترقی پسند پارٹیوں کا وجود ہی نہ تھا جیسا کہ ہم نے حوالہ دیا، صرف نیشنل عوامی پارٹی اور عوامی لیگ کسی حد تک ترقی پسند سیاست کرتی تھیں باقی ساری پارٹیاں وڈیروں اور جاگیرداروں کے قبضے میں تھیں اور اقتدار میں بھی یہی سیاسی جماعتیں تھیں جس کی وجہ سے ملک میں ترقی پسند سیاست ناپید تھی۔

ضیا الحق کی سیاست میں آمد سے ملکی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی آئی، بعض صنعتکار سیاستدان بن گئے۔ میاں نواز شریف کے ساتھ ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف بھی سیاست میں داخل ہوئے۔ ان دونوں کی سیاست میں آمد کے بعد سیاست میں ایک بڑی تبدیلی یہ آئی کہ سیاست پر جاگیرداروں کی گرفت کمزور ہونے لگی، سندھ اور جنوبی پنجاب تک جاگیردار محدود ہوگئے اور دونوں بھائی سیاست پر بتدریج چھاتے گئے۔ صنعتکاروں کی سیاست میں آمد کے بعد وہ ساری خرابیاں بھی سیاست میں آتی گئیں جو صنعتکار طبقے کا خاصہ تھیں۔ نواز شریف بڑے زیرک سیاستدان تھے انھوں نے بہت کم وقت میں سیاست پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔

ادھر بے نظیر بھٹو بھی سیاست میں فعال ہوگئیں اور این آر او کے ذریعے کھل کر سیاست کرنے لگیں۔ نواز شریف کے مقابلے میں بے نظیر عوام میں زیادہ مقبول رہیں، بے نظیر کے قتل کے بعد ان کی جگہ آصف علی زرداری لینے لگے اور یوں پیپلز پارٹی کو زندہ رکھا گیا، نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں دو جماعتوں کا راج شروع ہوا اور یہیں بڑھتے بڑھتے خاندانی سیاست میں بدل گیا۔ خاندانی سیاست میں صرف دو جماعتیں آگے رہیں اور اقتدار میں باری باری کا سلسلہ شروع ہو گیا اور یہ سلسلہ اس قدر مضبوط ہو گیا کہ اب ملک پر باری باری کا کلچر رائج ہوچکا ہے۔