Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Zarai Islahat Ke Baghair

Zarai Islahat Ke Baghair

پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے لیکن ماضی کے تمام حکمرانوں نے اس ملک کو ترقی کی راہ پر آگے بڑھنے ہی نہیں دیا۔ یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ ترقی کے اس دور میں جہاں پچھڑے ہوئے ملک بھی زندگی کے ہر شعبے میں آگے بڑھنے کے لیے کوشاں ہیں، پاکستان وہ ملک ہے جہاں ابھی تک سندھ اور جنوبی پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں جاگیردارانہ اور قبائلی نظام قائم ہے اور اس ملک کے بلاشرکت غیرے مالک بنے بیٹھے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے ہی جب جاگیردار اور قبائلی سردار طبقے کو یہ یقین ہو گیا کہ اب پاکستان کو بننے سے کوئی نہیں روک سکتا، مسلم لیگ میں نہ صرف بھرتی ہوگئے بلکہ کمانڈنگ پوزیشن حاصل کرلی۔ اس سچویشن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جاگیردار اور وڈیرے سیاست کی پہلی صف میں آگئے۔ لیاقت علی خان ان کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ تھے، سو انھیں قتل کرایا گیا، ان کے قتل کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ سن آف دی سوائل نہ تھے۔

بہرحال لیاقت علی خان کے بعد ملک سیاسی حوالے سے ابتری کا شکار ہوگیا، اس ابتری میں جاگیردار اور قبائلی سردار طبقے کا بڑا ہاتھ رہا۔ اس دور میں بائیں بازوکی سیاست فعال تھی اور بایاں بازو مزدوروں اور کسانوں کی بہتری کا خواہش مند تھا۔ بائیں بازو کے دباؤ پر ایوب خان نے زرعی اصلاحات کا اعلان کیا، لیکن جاگیرداروں اور وڈیروں کے دباؤ پر اور اپنی سیاسی ضرورتوں کے تحت ایوب خان نے اپنے وفادار جاگیرداروں اور وڈیروں کو لی ہوئی زمینوں کا ایک بڑا واپس کردیا۔ جاگیردار اور وڈیرے کنونشن لیگ بناکر ایوب خان کے اور قریب آگئے اور سیاست میں اور فعال کردار ادا کرنے لگے۔

ایوب خان کے بعد بھٹو صاحب اقتدار میں آئے۔ بھٹو صاحب خود ایک بہت بڑے جاگیردار تھے لیکن سیاست اور ملک کے حالات سے باخبر بھٹوکو اندازہ ہوا کہ اس وقت زرعی اصلاحات ملک کے لیے ضروری ہیں سو بھٹو نے زرعی اصلاحات کا اعلان کردیا۔ لیکن بااثر اور چالاک جاگیردار اور قبائلی سردار طبقے نے ان زرعی اصلاحات کو ناکام بنا دیا اور پروپیگنڈا یہ کیا جانے لگا کہ تین زرعی اصلاحات کے بعد جاگیرداری اور وڈیرہ شاہی کیسے باقی رہ سکتی ہے۔ ملک میں جاگیرداری ختم ہوگئی۔ یہ پروپیگنڈا ایسے منظم اور مربوط انداز میں کیا گیا کہ عام تاثر یہی پیدا ہوا کہ جاگیرداری ختم ہوگئی۔ مجھے حیرت ہوئی اس وقت جب جی ایم سید نے بھی مجھ سے یہی کہا کہ ملک میں جاگیرداری اب کہاں ہے۔

میں جی ایم سید سے کوئی ایک گھنٹہ بات کرتا رہا جس کا موضوع جاگیرداری اور سیاست حاضرہ تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب سید صاحب اسپتال میں زیر علاج تھے۔ یہ اس پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے جو وڈیرہ شاہی نے بڑے منظم انداز میں جاگیرداری ختم ہونے کا پروپیگنڈا کیا تھا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ بعض جاگیرداروں اور معروف وڈیروں کے پاس اب بھی ہزاروں ایکڑ زمین ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بعض وڈیروں کے پاس اب بھی لاکھوں ایکڑ زمین باقی ہے۔ اس ابہام کا حل یہ ہے کہ سندھ اور جنوبی پنجاب میں جاگیرداری ہے یا نہیں اب بھی جاگیرداروں اور وڈیروں کے پاس لاکھوں ایکڑ زمین ہے یا نہیں اس کی تحقیق کے لیے ایک آزاد کمیشن بنایا جائے۔ یہ تحقیقی اس لیے اہم اور ضروری ہے کہ اب بھی وڈیرے اور جاگیردار نہ صرف سیاست میں فعال ہیں بلکہ اپنے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں اس حوالے سے کمیشن بنانے پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

ہمارے ملک میں اب تک جاگیردار اور وڈیرے کی حیثیت ہاریوں اور کسانوں میں بادشاہوں کی سی ہے اگر کسی کسان یا ہاری کو کسی شدید ضرورت کے تحت وڈیرے کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے اس کی کوٹھی پر جانا پڑے یا وڈیرہ کسی ہاری یا کسان کو اپنی کوٹھی پر بلاتا ہے تو سب سے پہلے یہ ہوتا ہے کہ ہاری یا کسان کو وڈیرہ سرکار سے ملنے کے لیے گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے اور جب باریابی کی باری آتی ہے تو ہاری کو چپل یا جوتے اتار کر وڈیرے کے پاس ننگے پاؤں سر جھکا کر جانا پڑتا ہے اور وڈیرے کے سامنے سر جھکا کر کھڑا ہونا پڑتا ہے جب حاضری ختم ہو جاتی ہے تو ہاری کو الٹے پاؤں واپس جانا پڑتا ہے۔ یہ وہ آداب ہیں جو وڈیروں اور جاگیرداروں کی بارگاہ میں جانے کے لیے انجام دینے پڑتے ہیں۔ کیا آج کی 21 ویں صدی کے کلچر سے وڈیرہ شاہی کے آداب کا موازنہ کیا جاسکتا ہے؟

اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہاری اور کسان جاگیرداروں اور وڈیروں کے غلام ہی بنے ہوئے نہیں ہیں بلکہ انتخابات کے موقع پر ہاری اور کسان وڈیروں اور جاگیرداروں کے ووٹر بھی ہوتے ہیں اور مجال نہیں کہ کوئی ہاری یا کسان اپنے وڈیرے اور جاگیردار کے علاوہ کسی کو ووٹ دے دے۔ وڈیروں اور جاگیرداروں کی اسمبلیوں میں سیٹیں پکی ہوتی ہیں اس طرح جاگیردار طبقہ اول دن سے قانون ساز اداروں کا مستقل ممبر چلا آرہا ہے۔ یہی وہ طاقت ہے جو 71 سال سے جاگیرداروں کے ہاتھوں میں مرتکز ہوکر رہ گئی ہے ملک کو جمہوریت کی راہ پر ڈالنے کے لیے اس طاقت کو توڑنا ضروری ہے اور صرف انتخابات کا نظام بدلنے ہی سے یہ طاقت ٹوٹ سکتی ہے۔

جو انتخابی نظام ملک میں جاری ہے اسے بالادست طاقتوں نے اس طرح ترتیب دیا ہے کہ غریب آدمی مزدور اور کسان انتخابات میں امیدوار بننے کی بات خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا۔ اول تو جاگیرداروں اور وڈیروں نے نفسیاتی طور پر ہاریوں اور کسانوں کو اس قدر شدید احساس کمتری میں مبتلا کرکے رکھا ہے کہ وہ الیکشن لڑنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ دوسرا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انتخابی نظام ایسا بنایا گیا ہے کہ انتخابات لڑنے کے لیے کروڑوں روپوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

کیا ایک ہاری اور کسان کے پاس کروڑوں روپے ہوسکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب صدیوں سے جواب طلب ہی بنا ہوا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک ہوتا یہ تھا اور شاید اب بھی ہوتا ہو کہ جاگیردار اپنے دوست احباب کو جن کا ان حلقوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اپنے حلقوں سے امیدوار نامزد کرتے ہیں اور ان کے اثر و رسوخ کا عالم یہ ہے کہ دوسرے حلقوں میں رہنے والے جاگیرداروں کے حلقوںسے انتخاب لڑ کر کامیاب ہوجاتے ہیں اور عوام کی نمایندگی کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں۔

یہ ہیں جاگیرداروں کے وہ ہتھکنڈے جنھیں وہ 71سال سے استعمال کر رہے ہیں اور قانون ساز اداروں میں براجمان ہیں۔ اب اس سلسلے کو ختم ہونا چاہیے اور انتخابی ڈھانچے کو اس طرح استوار کرنا چاہیے کہ انتخاب لڑنے والوں کے بینک اکاؤنٹ میں کروڑوں روپے نہ ہوں بلکہ ایمانداری، علم اور صلاحیت ہو یہی ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے ہاری کسان جاگیرداروں کی غلامی سے نجات پاسکتے ہیں اور یہ کام زرعی اصلاحات کے بغیر نہیں ہوسکتا۔