Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Shuhda e Karbala Ko Salam e Aqeedat

Shuhda e Karbala Ko Salam e Aqeedat

حضرت امام حسینؓ کی شان میں کہنا اتنا ہی کافی ہے کہ حضرت سلیمان فارسی فرماتے ہیں کہ "میں نے نبی کریمؐ سے سنا ہے امام حسنؓ اور امام حسینؓ میرے بیٹے ہیں اور جس نے ان دونوں کو محبوب رکھا، اس نے مجھے محبوب رکھا "۔ یہ بھی دیکھئے کہ نبی کریم ؐ اپنی مبارک پشت پر دونوں شہزادوں کو سوار کئے ہوئے ہیں اور ساتھ فرما رہے ہیں کہ " اگر سواری عمدہ ہے تو سوار کتنے اچھے ہیں۔" حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ " ایک بار حضور کریمؐنے حضرت بی بی فاطمہؓ سے فرمایا کہ کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم جنت میں عورتوں کی سردار ہو اور تمہارے بیٹے جنت میں نوجوانوں کے سردار ہیں۔"

واقعہ کربلا کا سرائیکی وسیب سے گہرا تعلق ہے، یہ بات دعوے سی کہی جا سکتی ہے کہ حضرت امام عالی مقام ؓ کی قربانی کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے جتنا مرثیہ سرائیکی زبان میں کہا گیا ہے، دنیا کی کسی زبان میں نہیں کہا گیا۔ سانحہ کربلا 10 محرم 61 ھ بمطابق پہلی اکتوبر 680ء کے بعد حضرت امام حسین ؓ کے بیٹے حضرت امام زین العابدین ؓ مستورات کو لے کر دمشق گئے تو حضرت امام حسین ؓ کی بہن ام کلثوم اور امام زین العابدین کی زوجہ محترمہ نے مرثیے کہے۔ مرثیے کو سرائیکی کی اصناف سخن میں سے ایک معتبر صنف کی حیثیت حاصل ہے اور اس صنف میں ہزاروں سخن ور طبع آزمائی کر چکے ہیں، ہزار ہا کر رہے ہیں اور سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کتابیں واقعہ کربلا کی یاد میں لکھی جا چکی ہیں۔ مرثیہ جس سوز و گداز اور محبت کے ساتھ سرائیکی زبان میں پڑھا اور سنا جاتا ہے کسی اور زبان میں اس کی مثال ملنا بہت مشکل ہے۔

سرائیکی زبان کی مٹھاس، نرمی و ملائمت کا ایک زمانہ قائل ہے۔ سرائیکی میں ہونے والی شاعری سوز و گداز کی شاعری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرائیکی شاعروں میں کوئی ایسا نہیں جس نے حمد، نعت کے بعد قصیدہ نہ لکھا ہو، اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ واقعہ کربلا کی یاد میں جنتا کچھ سرائیکی زبان میں لکھا گیا ہے، شاید ہی دنیا کی کسی زبان میں لکھا گیا ہو۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ سرائیکی زبان میں کربلائی ادب کے نام سے بہت سی اصنافِ سخن جانی اور پہچانی جاتی ہیں جیسا کہ حسینی ڈوہڑہ، حسینی مرثیہ، حسینی قصیدہ اور حسینی منقبت اپنی مثال آپ ہیں۔

وسیب کے قدیم مرکز ملتان میں عزاداری اور مرثیے کی روایت بہت قدیم ہے۔ مورخین اس پر لکھتے ہیں کہ خطہ ملتان میں عزاداری اس وقت شروع ہو گئی تھی جب واقعہ کربلا کے بعد دت قوم کے کچھ لوگ حضرت امام حسینؓ سے عقیدت رکھنے کے باعث وہاں مظالم کا شکار ہوئے اور عراق سے نکال دیئے گئے۔ یہ لوگ عربی النسل تھے۔ یہ لوگ 681ء کے لگ بھگ ایران کے راستے ملتان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں آ کر آباد ہوئے۔ ملتان شروع سے ہی محبت کرنے والا خطہ ہے، پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم ہوا، ملتان کے باسیوں نے اسے اپنا درد سمجھا۔ دنیا میں پیش آنے والے ہر سانحے کو اپنا سانحہ سمجھ لیتے تھے۔ ظلم کا شکار کوئی بھی قوم ہجرت کر کے آئی، اہل وسیب نے محبت دی۔ ایک روایت اور بھی ہے وہ یہ کہ وہ لوگ جو ظلم کا شکار ہو کر عراق سے ایران کے راستے اس علاقے آئے، یہاں کے کلچر اور یہاں کی زبان سے مانوس ہوئے، یہیں سے سرائیکی مرثیہ کی روایت بنی۔

محرم الحرام اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے۔ اس ماہ کو شہدائے کربلا کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں اس مہینے کی بہت زیادہ عظمت ہے، اس پورے مہینے کو شہدائے کربلا کی یاد منانے کے ساتھ ساتھ سرائیکی وسیب میں یہ بھی ہوتا ہے کہ مسلمان شہر خاموشاں کی طرف جاتے ہیں اور پہلی محرم سے 10 محرم تک قبروں کی لپائی کی جاتی ہے۔ لواحقین قبرستانوں میں جا کر فاتحہ خوانی کرتے ہیں، نذر نیاز اور طعام کی تقسیم ہوتا ہے، کھجور کے پتے، دالیں، خوشبودار پانی اور پھول کی پتیاں قبروں پر نچھاور کی جاتی ہیں، اگر بتیاں جلائی جاتی ہیں۔ ان دنوں مستری مزدور بہت مصروف نظر آتے ہیں۔ یہ رسومات ایک طرح سے اسلامی ثقافت کا حصہ بن کر رہ گئی ہیں۔ محرم الحرام کے موقع پر قبرستان جانے پر اعتراض نہیں لیکن یہ کام وہ ہیں کہ جو ہر وقت ہو سکتے ہیں اور پورا سال فاتحہ کیلئے قبرستان میں آنا جانا رہنا چاہئے۔ قبرستان جانے کے مقاصد بھی فراموش نہیں کرنے چاہئیں، موت بر حق ہے مگر ان کاموں کے بارے میں سوچنا چاہئے جو موت کو بھی مار دیں اور ہمیشہ یاد رکھے جائیں۔

کربلا کا واقعہ تاریخ اسلام کا المناک واقعہ ہے، اس واقعہ کا پیغام باطل قوتوں سے ٹکرا کر حق و صداقت کا علم بلند کرنا ہے اور غمِ حسین کو طاقت بنا کر آگے بڑھنا ہے۔ ظالم سے ٹکرانے کی ضرورت ہے، دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھنی ہے، امریکا، اسرائیل، بھارت گٹھ جوڑ مسلمانوں کے خلاف ہے، ان حالات میں مذہب اسلام کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے، فرقہ واریت سے بچنا ہے، فرقہ واریت کے نام پر اسلام اور پاکستان کا بہت نقصان ہو چکا ہے۔ سرکاری طور پر فرقہ واری کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔ علماء، ذاکرین اور گدی نشینوں کو خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیری ادا کرنا ہوگی۔

کربلا کے واقعات پڑھیں تو ایک ایک بات ہمارے لئے سبق اور مشعل راہ ہے۔ کربلا کی جنگ میں خواتین کا کردار بھی لازوال اور بے مثال ہے۔ یوم عاشور کے دوران حضرت امام حسینؓ کے قافلے سے 21 خواتین اسیر ہوئیں جن میں سے غیر ہاشمی اور بنی ہاشم قبیلے کی خواتین شامل تھیں۔ شام، کوفہ کے بازاروں میں حضرت زینبؓ کے خطبات نے لوگوں کے ذہنوں میں آپ کے والد حضرت علیؓ کے خطبات کی یاد تازہ کر دی ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ باطل قوتوں کے ساتھ ٹکرانے کیلئے خواتین کو بھی میدان میں آنا چاہئے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ فرقہ واریت سے بچنے کی ضرورت ہے، میں دیکھ رہا ہوں کہ فرقہ پرست، جن کی روٹی روزی کا مسئلہ فرقہ واریت ہے اور جن کو فرقہ ورانہ ممالک کی آشیرباد حاصل ہے ایک بار پھر ماحول کو خراب کرتے نظر آرہے ہیں۔ سمجھ دار عالم ایسا نہیں کرتے مگر کچھ جنونی لوگ حالات خراب کرتے ہیں۔