بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی اساس جمہوریت کو قرار دیا تھا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ریاست مدینہ کا شورائی نظام بھی جمہوریت کی ایک شکل ہی تھی کہ مشاورت کے بعد اکثریت کی بنیاد پر فیصلے ہوتے، بانی پاکستان اپنی سوچ اور اپنے وژن کے مطابق پاکستان کو مضبوط جمہوری ملک بنانے چاہتے تھے یہ بھی حقیقت ہے کہ قیام پاکستان سے ایک سال قبل 1946ء میں ہونے والے مرکزی اسمبلی کے الیکشن میں مسلم لیگ کو مسلم علاقوں میں بھرپور کامیابی حاصل ہوئی، قائد اعظم محمد علی جناح نے اسے مسلمانوں کی جمہوری کامیابی قرار دیا اور 11جنوری 1946ء کو کامیابی کا جشن منایا گیا۔ اس کے بعد صوبائی الیکشن ہوئے مسلم لیگ نے کل 495مسلم نشستوں میں سے 428نشستیں حاصل کیں۔ بنگال میں سب سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی۔ قائد اعظم کی زندگی نے وفا نہ کی، اُن کی وفات کے ساتھ ہی جمہوریت کے خلاف سازشیں شروع ہو گئیں۔ 1954ء میں مشرقی بنگال کے انتخابات ابتری کی صورت میں سامنے آئے، ان انتخابات میں مسلم لیگ کے علاوہ کسی دوسری جماعت نے احتجاجاً حصہ نہ لیا۔ اس موقع پر خونی فسادات بھی ہوئے 1956ء میں آئین تیار ہوا مگر 7اکتوبر 1958ء کو مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔
ایوب خان نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت میں 27 اکتوبر 1958ء کو آئین منسوخ کر دیا اور 1959ء کوبنیادی جمہوریت کے نئے مقام کا ڈھونگ رچایا۔ غیر جمہوری ہتھکنڈوں کے خلاف میڈیا نے آواز بلند کی تو خاموش کرا دیا گیا۔ عوام کے احتجاج پر 25 مارچ 1969ء کو ایوب خان نے اختیارات کمانڈر اینڈ چیف جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر دئیے۔ یحییٰ خان نے 7دسمبر1970ء کو بالغ رائے دہی کے بنیاد پر عام انتخابات کرائے، عوامی لیگ کو بھرپور کامیابی حاصل ہوئی اور اُس نے تین سو کے ایوان میں نصف سے زائد یعنی 151نشستیں حاصل کیں مگر نتیجہ تسلیم نہ کیا گیا، جس کی بناء پر فسادات ہوئے اور ملک دولخت ہو گیا۔ بقیہ ملک کا اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کو ملا انہوں نے 1973ء کا آئین دیا مگر ضیاء الحق نے 5 جولائی 1970ء کو پھر مارشل لاء لگا دیا۔ اس کے بعد 1984ء کے ریفرنڈم کا ڈھونگ رچایا گیا اور اس کے بعد مشرف کا غیر جمہوری دور بھی آیا اور اس دوران جمہوریت کے نام پر سیاست کرنے والے سیاستدانوں کے غیر جمہوری رویے جمہوریت کی تباہی کا باعث بنے۔ اس موقع پرجمہوری قوتیں اور میڈیا اپنا بھرپور کردار ادا کرنے سے قاصر رہا۔
جمہوری اقدار میں میڈیا کا کردار، کے موضوع پر ملتان پریس کلب میں جھوک سرائیکی کی طرف سے ہونے والے سیمینار میں، میں نے کہا تھا کہ دیکھنے میں بڑا ہی دلکش موضوع لگتا ہے لیکن یہ سننے، سنانے اور بتانے کیلئے کوئی تیار بھی نہیں کہ دنیا بھر میں کہیں بھی جمہوریت ہے ہی نہیں۔ شروع دن سے میڈیا نے عوامی اجتماعی مفاد میں کم و بیش کوئی کردار ادا کیا ہو۔ اگر ہم جمہوریت کو عالمی تناظر میں دیکھیں اور اُن ملکوں کو دیکھیں جو صبح و شام جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں وہاں بھی پوری دنیا پر حکومت کرنے کی خواہش پر المناک واقعات سامنے آتے ہیں۔ 9/11 کے واقعے کو ہی لے لیجئے، دنیا بھر کے میڈیا نے نہ صرف اپنے بلکہ دوسرے ملک کی عوام کے ساتھ دھوکہ دہی سے کام لیا۔ اس کی آڑ میں افغانستان پر کارپٹڈ بمباری کی گئی۔ اس سے توجہ ہٹانے کیلئے فرانسیسی منجم شاعر کی شاعری کا سہارا لیا گیا کہ دو ڈھائی سو سال پہلے اس نے پیشین گوئی کی تھی۔ دو آہنی پرندے نیو سٹی سے ٹکرائیں گے۔ لوگوں کی توجہ اُدھر مبذول کرا دی گئی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا، افغانستان کے کروڑوں عوام پر مصائب کے پہاڑ توڑ دیئے گئے۔
اگر یورپ میں ایک بطخ کی ٹانگ ٹوٹ جائے، یہی میڈیا اس عمل کو آسمان پر اُٹھا لیتا ہے۔ مگر مسلمانوں پر قیامت ہی کیوں نہ گزر جائے میڈیا کی آنکھ کو کچھ نظر نہیں آتا، جبکہ میڈیا کے چینلز کو کراچی کے بعض علاقوں میں صفائی اور گندگی کے مسئلے پر طویل نشریات کرتے ہم نے دیکھا، یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا میں عرض یہ کر رہا تھا کہ ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے والی بات ہے۔ اس کی دیکھا دیکھی، ہم جیسے محکوم ممالک اس دھوکہ باز عالمی میڈیا کی کوریج کو آگے بڑھاتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد افغانستان کی تباہی پر یورپ کے میڈیا اور ہمارے میڈیا دونوں کا کردار یکساں رہا۔ یہ طالبان کون ہیں؟ انہیں کون پالتا رہا؟ کس کی فنڈنگ حاصل رہی؟ کبھی میڈیا نے اس بارے میں بات نہیں کی۔ لوگوں کو جمہوریت کی مضبوطی میں میڈیا کا کردار جیسے موضوع میں الجھا کر جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور طاقتور جمہوریت پر قابض ہو کر غریب طبقات کا اجتماعی استحصال کرنے پر تیار ہوتے ہیں۔ بس میڈیا کا یہی کردار ہے۔ البتہ پاکستان جیسے ممالک میں انفرادی طور پر کہیں کہیں عوام پر انفرادی مظالم کی کوریج کی جاتی ہے۔ لیکن لوگ ایسی پالیسیوں کی بیخ کنی کیلئے آواز نہیں اُٹھاتے جس کے نتیجے میں ریاستی وسائل پائپ لائن کے ذریعے قابض گروہوں کے تجوریوں میں منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ غریب طبقات خصوصاً پسماندہ علاقوں کے غریبوں کی بات کوئی سننے کو تیار نہیں۔
عوام میں شعور کی بیداری ہی میڈیا کے مضبوط کردار کی عکاس ہے لیکن استحصالی جمہوریت کے فروغ میں میڈیا کا کردار ہمیشہ فعال رہا۔ قانون ساز اداروں میں عام آدمی کو فائدہ پہنچانے کیلئے میڈیا کا کردار صفر ہے۔ اگر میڈیا کا کردار صفر ہے تو حقیقی جمہوریت کے فروغ کیلئے میڈیا کے اس کردار کی بات کی جانی چاہئے۔ حرفِ آخر یہی ہے، انتخابی نظام اور نظامِ نمائندگی پر توجہ دی جائے، میڈیا اس بارے میں عوام کے شعور کو کام میں لائے، فروعی معاملات سے رشتہ توڑے تو کہا جا سکے گا کہ جمہوریت کی مضبوطی کے فروغ کیلئے میڈیا کا کردار قابلِ ستائش ہے۔ میڈیا ہائوسز کو وقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ خود جمہوریت تو کیا میڈیا کی اپنی بقاء خطرے میں ہے۔ یہ ایک خوفناک حقیقت ہے جس کا ادراک میڈیا کے صاحبانِ اختیار کو کرنا چاہیے۔