Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Koi Khud Ko Qanoon Se Balatar Na Samjhe

Koi Khud Ko Qanoon Se Balatar Na Samjhe

لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے منصوبے، نیا پاکستان اپارٹمنٹس کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مجھ سمیت سب جوابدہ ہیں، جس پر بھی الزامات ہیں قانون کا سامنا کرے، کوئی خود کو قانون سے بالاتر نہ سمجھے، سب کا احتساب ہو گا۔ دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان کے دیرینہ ساتھی جہانگیر ترین کی طرف سے لاہور میں ارکان اسمبلی اور صوبائی وزراء کے اعزاز میں عشائیہ دیا گیا۔ عشائیے میں 8ارکان قومی اسمبلی 2صوبائی وزراء اور 4مشیروں سمیت 21 پنجاب اسمبلی کے ارکان نے شرکت کی۔ ارکان اسمبلی کا یہ کہنا تھا کہ پارٹی میں کوئی فارورڈ گروپ نہیں بنا رہے اور نہ کوئی کہیں جا رہا ہے۔ ہم تحریک انصاف میں ہیں البتہ جہانگیر ترین کو انصاف دلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ایف آئی اے کی درخواست پر جہانگیر ترین اور ان کے اہلخانہ کے 36بینک اکائونٹس منجمند کر دئیے گئے۔ جہاں تک سب کا احتساب والی بات ہے تو موجودہ دور میں بھی زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ جہانگیر ترین عمران خان کے بہت قریب تھے ان کو غیر اعلانیہ طور پر سیکنڈ وزیر اعظم بھی کہا جاتا تھا اور اے ٹی ا یم والی بات تو پرانی ہو چکی ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جہانگیر ترین نے تحریک انصاف کو برسر اقتدار لانے میں بھرپور خدمات انجام دیں۔ جہانگیر ترین کا معاملہ خراب ہوا، جہانگیر ترین ملک چھوڑ کر چلے گئے، اُن کے بہی خواہوں نے معاملہ ٹھیک کرانے کی کوشش کی، جہانگیر ترین واپس آئے مگر ابھی تک عمران خان سے ملاقات نہیں ہو سکی، عمران خان کی عادت سے دوسرے لوگ واقف ہوں یا نہ ہوں سرائیکی وسیب کے لوگ اچھی طرح واقف ہیں۔ جہانگیر ترین سے بھی اُسی طرح کی اَنا کا معاملہ چل رہا ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ اختلافات پیدا کرانے والے بھی نا دان نہیں اُن کو معلوم تھا کہ جہانگیر ترین صاحب حیثیت ہونے کے ساتھ ساتھ دانا اور ریفارمر بھی رہے۔ جہانگیر ترین عمران خان کے قریب ہو گا تو اُن کی دال نہیں گلے گی۔ اس صورت حال سے جہانگیر ترین کے قریبی ساتھی اور تحریک انصاف کے غیر جانب دار حلقے پریشان نظر آتے ہیں اور اُن کی خواہش ہے کہ یہ معاملہ سلجھ جائے۔

جہانگیر ترین کا معاملہ اس قدر گنجلک ہے کہ اخباری نمائندوں کے سامنے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے بھی یہ کہہ کر ہاتھ کھڑے کر لیے کہ جہانگیر ترین کا معاملہ حساس ہے اور اس معاملے کو وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے داخلہ شہزاد اکبر دیکھ رہے ہیں۔ میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ شیخ رشید کی یہ بات بذات خود اُن کے اپنے اس بیان کے برعکس تھی کہ میں وزیر داخلہ ہوں مجھے پتہ ہے کہ میرے اختیارات کیا ہیں، ایف آئی اے سمیت تمام ادارے میرے ماتحت کام کرتے ہیں میں کسی مشیر کو اپنے اختیارات میں مداخلت نہیں کرنے دوں گا۔ جبکہ جہانگیر ترین نے یہ کہا کہ میں وزیر ا عظم کے دوستوں کی صف میں ہوں مجھے دشمنوں کی صف میں دھکیلا جا رہا ہے اور میرے خلاف وزیر اعظم کے مشیر شہزاد اکبر اور وزیر اعظم کے پرسنل سیکرٹری اعظم خان نے سازش کی ہے۔ ان دوشخصیات کے علاوہ وسیب سے تعلق رکھنے والے مخدوم شاہ محمود قریشی بھی جہانگیر ترین سے اس بناء پر ناراض ہیں کہ جہانگیر ترین نے ملتان شہر کے ایک نوآموزسیاسی ورکرسلمان نعیم سے مخدوم شاہ محمود قریشی کوایم پی اے کا الیکشن ہروا دیاتھا اور مخدوم شاہ محمود قریشی اپنے اس غصے کو نہیں بھول پائے اور ہو سکتا ہے کہ کبھی بھی اُن کے انتقام کی آگ ٹھنڈی نہ ہو۔

البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ مخدوم شاہ محمود کے علاوہ وسیب میں جہانگیر ترین کا سیاسی حلقہ بہت وسیع ہے۔ جہانگیر ترین کے عشائیے میں شرکت کرنے والے ارکان اسمبلی اور وزراء کا تعلق بھی وسیب سے ہے۔ سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخواہ کا کوئی آدمی ان میں شامل نہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اب بھی مرکز اور صوبے میں حکومت وسیب کے مینڈیٹ کی وجہ سے ہے حکومت بنانے میں جہانگیر ترین کا بہت ہاتھ ہے یہی وجہ ہے کہ گزشتہ روز قوم پرست سرائیکی جماعتوں کے اتحاد سرائیکستان صوبہ محاذ کی طرف سے ایک بیان جاری ہوا جس میں کہا گیا کہ جہانگیر ترین کو وسیب کے مظلوم ووٹروں کی آہ لے بیٹھی ہے کہ جہانگیر ترین نے وسیب سے دھوکہ کیا، صوبہ محاذ کا ڈھونگ رچایا گیا اسی ڈھونگ کے باعث صوبے کی 50 سالہ پرامن جدوجہد کو کیش کرایا گیا اور حکومت بنانے کے بعد یہ سب کچھ بھلا دیا گیا۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ جہانگیر ترین نے وسیب سے دوسری بے وفائی یہ کی کہ اپنے سرائیکی ٹی وی چینل "روہی" کو بند کر کے کی۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عمران خان کی ناراضگی کا پہلو کوئی اور ہو گا مگر وسیب کے لوگ بھی جہانگیر ترین سے خوش نہیں ہیں۔

البتہ وسیب کے ارکان اسمبلی کی ہمدردیاں اب بھی جہانگیر ترین کو حاصل ہیں یہی وجہ ہے کہ آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ جہانگیر ترین کے لئے پیپلز پارٹی کے دروازے کھلے ہیں۔ دوسری طرف (ن) لیگ والے بھی جہانگیر ترین کو اپنانے کی کوشش میں ہیں۔ لیکن ایک بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کے سیاستدان اشارے کے منتظر ہوتے ہیں۔ اقتدار پرست اور موقع پرست سیاستدان کا لفظ استعمال کرنے کی اس لئے ضرورت نہیں کہ سب ہی موقعہ کی تلاش میں ہیں۔ پیپلز پارٹی یا (ن) لیگ؟ صرف اشارے کی دیر ہے جہانگیر ترین تو کیا سب ہی اس طرف ہوں گے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ عمران خان کے قریبی جہاں ا ُن کو دیگر مشورے دیتے ہیں اُن کو یہ بھی باور کرا رہے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کسی بھی وجہ سے قبل از وقت ختم ہو جائے تو عوام کی ہمدردیاں حاصل ہو جائیں گی اور ڈی چوک کے کنٹینر پر تقریر کامزہ آئے گا۔ مگر اُن کو یہ معلوم نہیں کہ لوگ کس قدر ستائے ہوئے اور ڈی چوک تو کیا یہ مارگلہ کے پہاڑ پر بھی چڑھ جائیں کوئی نہیں سنے گا۔۔ سندھ، بلوچستان تو پہلے بھی خالی تھے خیبر پختونخواہ بھی مایوس ہے اپر پنجاب سے پہلے بھی ووٹ نہیں ملے تھے ایک سرائیکی وسیب تھا جو وعدہ خلافی کی وجہ سے نالان ہے۔