اسسٹنٹ کمشنر سیالکوٹ سونیا صدف اور معاون وزیرا علیٰ پنجاب ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے درمیان ہونیوالا سخت مکالمہ موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ بات چیف سیکرٹری اور وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار تک جا پہنچی ہے۔ سوشل میڈیا پر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے سخت لب و لہجے کا چرچہ ہے۔ تحریک انصاف کے لوگ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے بے لگام بیورو کریسی کے خلاف ٹھیک ایکشن لیا جبکہ اپوزیشن اس پر سخت تنقید کر رہی ہے اور غیر جانبدار حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا لب و لہجہ سخت سہی مگر درست تھا۔ اپوزیشن کا موقف ہے کہ کچھ اور نہیں تو اس بات کا خیال کرنا چاہئے تھا کہ اسسٹنٹ کمشنر خاتون ہے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے جو بات ان کو بے عزت کرکے کی جا رہی تھی وہ ٹھنڈے دل سے بھی سمجھائی جا سکتی تھی۔ ڈاکٹر صاحبہ کی سرزنش سے مجھے ایک واقعہ یاد آیا کہ ایک بڑا افسر اپنے ماتحت پر ناراض ہوا تو گالی دے کر بولا کس الو کے پٹھے نے تمہیں یہاں تعینات کیا ہے؟ ماتحت نے کہا حضور!آپ نے۔
رمضان بازار واقعہ سے متعلق ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے بھی وزیر اعلیٰ سے شکایت کی ہے جبکہ چیف سیکرٹری نے بھی اس واقعہ کو بیورو کریسی کی ہتک قرار دے کر وزیر اعلیٰ سے شکایت کی ہے جبکہ ملتان سے تعلق رکھنے والے صوبائی پارلیمانی سیکرٹری ندیم قریشی نے چیف سیکرٹری کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر چیف سیکرٹری سیاست کرنا چاہتے ہیں تو استعفیٰ دیں۔ جہاں تک واقعہ کا تعلق ہے تو ویڈیو دیکھنے کے بعد کوئی بھی غیر جانبدار شخص یہ فیصلہ دے سکتا ہے کہ قصور کس کا ہے؟ البتہ یہ ٹھیک ہے کہ وزیر اعلیٰ کی معاون خصوصی رمضان بازار کا دورہ کر رہی تھیں تو اسسٹنٹ کمشنر کو اپنی گاڑی میں بیٹھنے کی بجائے ان کے ساتھ ہونا چاہئے تھا۔ وہ امریکہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، ہر پڑھے لکھے شخص کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ وی آئی پی دولت مند یا افسر نہیں ہوتے بلکہ وہ غریب ہوتے ہیں جو اپنا پیٹ پالنے کیلئے لائنوں میں لگتے ہیں۔
یہ واقعہ سیالکوٹ کے رمضان بازار میں پیش آیا، دیکھا جائے تو رمضان بازار بذات خود گورکھ دھندہ ہے۔ غریب عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونیوالا اربوں روپیہ غریبوں کو ریلیف کی بجائے تکلیف پر خرچ ہو رہا ہے۔ کوئی چیز خالص نہیں، سب لوٹ مار والا سلسلہ ہے۔ رمضان سبسڈی کے نام پر دی جانے والی رقم احساس پروگرام میں شامل کرکے براہ راست غریبوں کو دی جاتی تو بہتر تھا۔ نہ رمضان بازار ہوتا نہ یہ واقعہ پیش آتا۔ جہاں تک چیف سیکرٹری صاحب کی شکایت کا تعلق ہے تو اس موقع پر عثمان بزدار اور میاں شہباز شریف کے دَور کا موازنہ ضروری ہے کہ شہباز شریف نے بیورو کریسی کو ذاتی ملازم کے طور پے استعمال کیا اور یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ذرہ سی بات پر میاں شہباز شریف بڑے سے بڑے افسر کو موقعہ پر کھڑے کھڑے ڈس مس کر دیتے تھے۔ حالانکہ یہ عمل غیر قانونی اور غیر آئینی ہوتا کہ وہ اس طرح کا آرڈر جاری کرنے کے مجاز نہ تھے۔ سونیا صدف کی طرح جتوئی کے اسسٹنٹ کمشنر کو بھی تحریک انصاف کے ناراض ایم پی اے خرم لغاری نے ڈانٹا ہے دیکھنا ہے کہ یہ بات کہاں تک پہنچتی ہے۔
موجودہ حالات کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے وزیر اعظم عمران خان کی ان امور کی طرف توجہ نہیں ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہر حکمران خوشامدیوں کے گھیرے میں ہوتا ہے مگر موجودہ دور میں صورتحال زیادہ گھمبیر ہے۔ محترمہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا اسسٹنٹ کمشنر کو یہ کہنا کہ جس نے تم کو تعینات کیا ہے، اس سے بات کروں گی۔ واضح ہو کہ گالی والا لفظ میں نے استعمال نہیں کیا، لیکن محترمہ نے تو کشمالہ طارق کو ٹی وی چینل کے آن ایئر پروگرام میں یہ بھی نا شائستہ الفاظ کہے تھے۔ یہ لب و لہجہ کسی بھی لحاظ سے پارلیمانی نہیں ہے اس سے صرف افسوس ہی نہیں صدمہ بھی ہوتا ہے کہ ملک کی سیاست کس طرف جا رہی ہے۔ یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ خوشامد بازی کا دور دورہ ہے، عملی طور پر کوئی کام نہیں ہو رہا۔ یہ دور اس زمانے کی یاد دلاتا ہے جو کہ قائد اعظم کی وفات کے بعد شروع ہوا۔ ملک کے گورنر، جنرل غلام محمد بنے۔ وہ بھی خوشامدیوں میں گھرے ہوئے تھے۔ خوشامد سے بڑھ کر، خوشامد پسندی مہلک مرض ہے۔
قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب شہاب نامہ میں لکھتے ہیں کہ روز بروز حالات خراب ہوتے جا رہے تھے۔ گورنر، جنرل تک خوشامدیوں کے علاوہ کسی کی رسائی نہ تھی کہ وہ صرف خوشامدیوں کو پسند کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی تحریر میں مشرقی پاکستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا بھی نقشہ کھینچا۔ اگر ہم سمجھنا چاہیں تو آج بھی سمجھنے کا بہت سامان اس تحریر میں موجود ہے۔ قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں خوشامد کی قینچی عقل و فہم کے پرکاٹ کر انسان کے ذہن کو آزادی پرواز سے محروم کر دیتی ہے۔ خوشامدیوں میں گھرا ہوا انسان شیرے کے قوام میں پھنسی ہوئی مکھی کی طرح بے بس اور معذور ہوتا ہے۔ رفتہ رفتہ اُس کے اپنے حواس معطل ہو جاتے ہیں اور وہ وہی کچھ دیکھتا، سنتا، بولتا، سونگھتا اور محسوس کرتا ہے۔ جو خوشامدی کہتا ہے۔ جس سربراہ مملکت کی کرسی کو خوشامد کی دیمک لگ جائے، وہ پائیدار نہیں رہتی۔ اس کے فیصلے ناقص ہوتے ہیں اور اس کی رائے دوسروں کے قبضہ میں چلی جاتی ہے۔
قدرت اللہ شہاب مزید لکھتے ہیں پرائم منسٹر، وزرائ، کمانڈر انچیف اور دیگر اعلیٰ حکام میں کوئی ایسا مائی کا لال نہ تھا جو مسٹر غلام محمد کے روبرو کسی جائز نکتے پر بھی اختلاف رائے کا اظہار کرتا ہو۔ وہ سب اُن کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے اور ان کے منہ پر جی حضوری کا دم بھرتے تھے، لیکن اُن کی پیٹھ پیچھے سب ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ 1954ء کے انتخابات نے مشرقی پاکستان میں سیاست کو ایک نئے رخ اور ایک نئی توانائی کو جنم دیا تھا۔ اُس کے مقابلے میں گورنر جنرل نے مرکز میں کٹھ پتلیوں کا جو کھیل رچا رکھا تھا اس کی حیثیت قرون وسطی کے رنگ میں رنگے ہوئے کسی رجواڑے سے مختلف نہ تھی۔ مولانا بھاشانی نے گامگاری کے جلسہ عام میں مغربی پاکستان کو السلام علیکم کی دھمکی سنا کر ایک خطرناک علیحدگی پسند رجحان کو زبان دے دی تھی۔ مسٹر غلام محمد کی صدارت میں روز مرکزی کابینہ کے اجلاس ہوتے رہتے تھے لیکن ایسا اجلاس کبھی نہ ہوا جس میں مشرقی پاکستان کی نئی صورتحال کا سنجیدگی کے ساتھ سیاسی تجزیہ کیا جاتا۔ (شہاب نامہ، ص:447)