گزشتہ روز جھوک سرائیکی میں وسیب کی بہت بڑی سیاسی شخصیت ریاض ہاشمی کی برسی کی تقریب منائی گئی، تقریب میں شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کے ساتھ ساتھ سیاسی شخصیات نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر میں نے اپنی گفتگو میں کہاکہ کچھ لوگ تاریخ ہوتے ہیں اور کچھ تاریخ ساز، بلاشبہ ریاض ہاشمی (مرحوم) کاشمار تاریخ ساز لوگوں میں ہوتا ہے۔ موصوف کا تعلق میرے شہر خانپور سے تھا اور ہم نے بہت وقت ان کے ساتھ گزارا، اسی بناء پر ان کے بارے میں جو کچھ عرض کررہاہوں وہ نہ تو سنی سنائی باتیں ہیں نہ کتابی علم ہے بلکہ وہ بھولی بسری یادیں ہیں جو ان کے ساتھ گزریں۔ سچی بات یہ ہے کہ ریاض ہاشمی کے ساتھ بیتے لمحات یاد آتے ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ہم بھی خانپور آ گئے اور ریاض ہاشمی بھی زیادہ وقت کیلئے خانپور آ گئے۔ ہم نے خانپور میں دھریجہ پرنٹر کے نام سے چھاپہ خانہ قائم کیا اور سرائیکی صوبے کے کام کو مزید بڑھا دیا۔ ریاض ہاشمی اپنا قیمتی وقت نکال کر زیادہ عرصے کیلئے خانپور اس لئے آئے کہ ان کے والد کی جائیداد پر قبضے ہو چکے تھے، مزارعین اور ٹھیکیدار مالک بن بیٹھے تھے، ریاض ہاشمی مرحوم نے عدالتوں میں مقدمات کئے، وہ بہت عرصہ کیس لڑتے رہے مگر ان کی زندگی میں ان کو انصاف نہ مل سکا۔
میں بتاتا چلوں کہ ریاض ہاشمی اس شخصیت کا نام ہے جو براہ راست مولانا عبیداللہ سندھی کے شاگرد ہیں، ان کے والد فیض الحسن المعروف ڈاکٹر بگا مرحوم نے ان کو تعلیم کے لئے کراچی کے مدرسے میں داخل کرایا لیکن 1939ء میں مولانا عبیداللہ سندھی جلا وطنی کے بعد کراچی پہنچے اور ان کا اسی مدرسے میں خطاب تھا جہاں ریاض ہاشمی پڑھ رہے تھے۔ ریاض ہاشمی بتاتے ہیں کہ خطاب کے بعد میں مولانا عبید اللہ سندھی کوملا اور ان سے اپنا تعارف کرایا کہ میں خان پور سے آیا ہوں اور ڈاکٹر بگا کا بیٹا ہوں۔ مولانا عبید اللہ سندھی نے مجھے گلے لگایا اور کہا کہ تم مدرسے کی تعلیم چھوڑو کالج میں داخلہ لو اور وکیل بنو، چنانچہ انہوں نے ایسا کیا۔ ریاض ہاشمی بتاتے تھے کہ جب مولانا عبیداللہ سندھی دو تین سال بعد خان پور آئے تو بہت بیمار تھے، میں اپنے والد کو روزانہ سائیکل پر دین پور شریف لے جاتا اور حضرت سندھی سئیں کا میڈیکل چیک اپ کراتا۔ اس دوران مولانا عبیداللہ سندھی سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا، مجھ میں سیاسی و انقلابی سوچ پیدا ہوئی۔ مولانا عبید اللہ سندھی 1944ء میں رحلت فرما گئے تو میں نے بھی اپنا شہر چھوڑ دیا اور کراچی چلا گیا۔ وہاں میں نے تعلیم مکمل کی اور وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ لیکن میرا جھکاؤ سیاست کی طرف رہا۔ ریاض ہاشمی بتاتے ہیں کہ اس دوران میرے ریاض ہاشمی سئیں جی ایم سید، باچا خان، عبدالصمد خان اچکزئی، غوث بخش بزنجو، حیدر بخش جتوئی، رسول بخش تالپور، ممتاز بھٹو، ذوالفقار علی بھٹو اور دوسرے سیاسی رہنماؤں سے ذاتی مراسم استوار ہوئے۔
حقیقت یہ ہے کہ ریاض ہاشمی اس شخصیت کا نام ہے جس نے قیام پاکستان کے بعد نواب آف بہاولپور سر صادق محمد خان کے خلاف رٹ دائر کی کہ چونکہ بہاولپور کی ریاستی اسمبلی موجود تھی اسمبلی کی منظوری کے بغیر امیر آف بہاولپور کو اس بات کا اختیار نہیں کہ وہ ریاستی عوام کی تقدیر کا فیصلہ کریں، انہوں نے لکھا ریاست مالک وہاں کے باشندے ہوتے ہیں سربراہِ مملکت کی حیثیت محض ایک امین کی ہوتی ہے۔ مالکوں کی اجازت اور رضا مندی کے بغیر اگر ریاست کا امین کوئی فیصلہ کرتا ہے تو یہ امانت میں خیانت ہے۔ ریاض ہاشمی نے عوام کے اختیار کی بات کی اور بادشاہوں کے آمرانہ مزاج کی مخالفت کی۔ یہ ٹھیک ہے کہ ریاض ہاشمی کی استدعا نہ سنی گئی مگر انہوں نے اپنا تاریخی اور اصولی موقف تاریخ کے صفحات پر ریکارڈ کرا دیا۔
کارنامے اور خدمات بہت ہیں مگر میں چند ایک کا ذکر کروں گا۔ ریاض ہاشمی کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ 1954ء میں حکومت نے اپنے اغراض کے تحت مغربی پاکستان کو ون یونٹ قائم کیا اور دارالحکومت لاہو بنا دیا گیا۔ بعد ازاں ایوب خان نے پنجاب اور صوبہ سرحد کے پشتونوں کے اغراض کے لئے وفاقی دارالحکومت بھی سندھ سے پنجاب لے گئے۔ اس پر پنجاب کے علاوہ وسیب، سندھ، بلوچستان (صوبہ تو قائم نہ ہوا تھا لیکن بلوچوں کا خطہ قبائل کی صورت میں موجود تھا) اور صوبہ سرحد میں سخت احتجاج ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ ون یونٹ کے قیام سے صرف قوموں کی شناخت ہی نہیں چھینی گئی بلکہ ان کا اختیار اور ان کے وسائل کو بھی ہڑپ کر لیا ہے۔ اس اقدام کے خلاف اینٹی ون یونٹ کمیٹی قائم کی گئی جس میں تمام قومیں اور صوبے اس میں شامل تھے۔ اس وقت سرائیکی قوم کی نمائندگی ریاض ہاشمی نے کی اور سرائیکی خطے کی طرف سے وہ اینٹی ون یونٹ کمیٹی کے سب سے زیادہ فعال اور متحرک ممبر تھے۔ وہ اینٹی ون یونٹ کمیٹی میں ون یونٹ کے خاتمے تک متحرک تو تھے ہی مگر اس کے ساتھ ہی ان کی نئی جدوجہد شروع ہو گئی کہ یحییٰ خان نے ون یونٹ کے خاتمے پر سابق ریاست بہاولپور کو بھی پنجاب کے پیٹ میں ڈال دیا۔
ریاض ہاشمی بہت بڑی سیاسی تاریخ تھے، وہ اکثر مجھے واقعات سناتے، ایک مرتبہ انہوں نے کہا کہ میں نے بھٹو صاحب کو کہا کہ الحاق کے وقت بہاولپور سے 12 فیصد ملازمتوں کے کوٹے کا وعدہ کیا گیا تھا جس پر عمل نہیں ہوا۔ اس پر بھٹو نے کہا کہ بہاولپور اب پنجاب کے پاس چلا گیا ہے اور مجھے بھی پنجاب نے منتخب کیا ہے۔ تم بہاولپور والوں نے ووٹ نہیں دیئے۔ سندھ والوں نے بھی مجھے کم ووٹ دیئے کہ 31میں سے میرے حصے میں 14 نشستیں آئیں۔ اب میں تو سب کا نمائندہ ہوں، تم لوگ سرائیکی ثقافتی بنیادوں پر تحریک پیدا کرو، اس سے تمہارے خطے کو کچھ فائدہ ہو سکتا ہے۔ تحریک اور طاقت کے بغیر صوبہ تو کیا کچھ بھی نہیں ملے گا۔