Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Yaksan Nisab e Taleem

Yaksan Nisab e Taleem

وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے یکساں نصاب تعلیم کا مژدہ سنایا ہے اور اس سلسلے میں پالیسی بنائی جا رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ مارچ 2021ء سے پورے ملک میں یکساں نصاب تعلیم جاری ہو جائے گا مگر اکثر اعلانات صرف باتوں تک محدود رہ جاتے ہیں۔ اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ یکساں نصاب تعلیم ہونا چاہئے اور یہ بھی ضروری ہے کہ بچے کو اس کی ماں بولی میں تعلیم کا حق ملنا چاہئے۔ امیروں کی اولادیں انگلش میڈیم سکولوں میں پڑھتی ہیں اور مقابلے کے امتحان بھی انگلش میڈیم میں ہوتے ہیں۔ اس بناء پر غریب کے بچے رہ جاتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پرائیویٹ انگلش میڈیم اداروں نے تعلیم کو تجارت بنایا اور ان کی وجہ سے ہی بہت سی خرابیاں پیدا ہوئیں ایک اطلاع کے مطابق پرائیویٹ نصاب میں غلطیوں کی بھرمار ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صرف پنجاب کے پرائیوٹ سکولوں میں مختلف پبلشرز کی 10 ہزار کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ پنجاب ٹیکس بک بورڈ کی طرف سے ان 10 ہزار کتابوں میں سے صرف 500 کو چیک کیا گیا اور ان 500 میں سے 100 کتابوں پر پابندی لگانی پڑی۔

پابندی کا شکار ان 100 کتابوں میں کیا غلطیاں تھیں؟ کہا جاتا ہے کہ قرآن مجید کی آیات غلط لکھی گئی تھی، اپنی طرف سے آیات شامل کی گئی تھی، آیات کا ترجمہ غلط لکھا گیا تھا، احادیث مبارکہ کو غلط لکھا گیا تھا، اپنی طرف سے بنائی گئی حدیثوں کو شامل کیا گیا تھا، حدیثوں کا ترجمہ غلط لکھا گیا تھا، توہین رسالت پر مبنی مواد شامل تھا، توہین صحابہ کرام پر مبنی مواد شامل تھا۔ قائد اعظم اور علامہ اقبال سے متعلق معلومات غلط لکھی گئی تھیں، تاریخ پیدائش غلط لکھا گیا تھا۔ پاکستانکا نقشہ غلط شائع کیا گیا تھا۔ سر سید احمد خان کو انتقال کے 40 سال بعد ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازمت کرتے دکھایا گیا تھا۔ ایک کتاب میں مختلف ملکوں کے جھنڈے اور نقشے دے کر مضمون تھے، اس کتاب میں انڈیا کا نقشہ اور جھنڈا تو تھا لیکن پاکستان کا ذکر تک نہیں تھا۔ قومی سلامتی کے خلاف مواد شامل تھا، قابل اعتراض غیر اخلاقی فحش مواد شامل تھا۔ جب کہ یہ کتابیں 31 مختلف پبلشرز کی تھیں، جن کی سوچیں ایک دوسرے سے مختلف، ان کتابوں کو پڑھ کر کیسی نسل تیار ہوگی بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں۔ اب ان 10 ہزار کتابوں میں سے صرف 5 سو چیک کیا گیا تو یہ غلطیاں نکلی ہیں ایک ایک کتاب میں 40، 40 غلطیاں سوچیں باقی ساڑھے نو ہزار میں کیا کچھ ہوگا؟ یہ سب کتابیں پرائیویٹ سکولوں میں پڑھائی جاتی تھیں، اور پاکستان میں 69 فیصد والدین اپنے بچوں کو پرائیوٹ سکولوں میں پڑھانا چاہتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت تعلیم کے مسائل پر توجہ دے رہی ہے اور وزیراعظم عمران خان نے یونیورسٹیوں کو فنڈز جاری کرنے کی ہدایت کر دی ہے لیکن اس سے بھی زیادہ توجہ کی ضرورت ہے، اس کے ساتھ طبقاتی تعلیم کا خاتمہ ہونا چاہئے کہ طبقاتی تعلیم کی وجہ سے غریب طبقہ بہت پیچھے رہ گیا ہے اور واضح طور پر پاکستان کے لوگ دو طبقوں میں منقسم نظر آتے ہیں۔ غریب لوگ اپنی اولادوں کو انگلش میڈیم پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں تعلیم دلانے سے قاصر ہے، غریبوں کے بچے اردو میڈیم سرکاری سکولوں میں پڑھتے ہیں جبکہ اعلیٰ تعلیم کا پورا سسٹم انگلش میڈم ہے اور غریب کے بچے میڈیکل، انجینئرنگ، سی ایس ایس، آئی ایس ایس بی میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔

پنجاب بھر کے تمام سرکاری سکولوں میں پہلی سے پانچویں (پنجم) تک تدریسی نظام دوبارہ مکمل اُردو میڈیم کر دیا گیا ہے، انگریزی میڈیم تدریسی نظام کو باقاعدہ ختم کر دیا گیا ہے۔ حکومت کی ہدایت پر پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے پرائمری تک تمام درسی کتب اردو نصاب کے تحت تیار کرلی ہیں، مارچ میں یہ تمام درسی کتب سرکاری سکولوں میں مفت تقسیم کی جائیں گی۔ انہیں سطور میں ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ اُس وقت تک پرائمری سطح پر انگریزی کو ختم نہ کیاجائے جب تک پاکستان میں پرائمری سطح پر ماں بولی کی تعلیم رائج نہیں ہوجاتی، اور اعلیٰ تعلیم کے لئے انگریزی سے جان نہیں چھوٹتی۔ پرائمری سطح پر سرکاری سکولوں میں انگریزی کو ختم کرنے سے غریب کے بچوں کا نقصان ہو گا اور وہ اعلیٰ تعلیم سے محروم رہیں گے۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو اس فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ جب تک انگریزی کا متبادل تیار نہیں ہوتا، تعلیمی اداروں میں انگریزی کو برقرار رکھنا چاہئے کہ اردو میڈیم کی وجہ سے غریب کے بچوں کا پہلے بھی بہت نقصان ہو چکا ہے، اس کے ساتھ ماں بولیوں میں تعلیم کے فلسفے کو بھی آگے بڑھانا چاہئے۔

پوری دنیا کے ماہرین تعلیم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صرف ماں بولی میں تعلیم کے ذریعے ہی بچے کی ذہنی نشو نما کا مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے کہ بچے کی ذہنی و جسمانی ساخت پر اس کی ماں بولی کے اثرت ماں کے پیٹ میں ہی مرتب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ طالبعلم کی تخلیقی صلاحیتیں ماں بولی سے ہی پیدا ہوتی ہیں، دوسری کسی بھی زبان میں آپ اسے پڑھائیں گے وہ محض رٹا ہوگا۔ کسی بھی زبان کو آئوٹ کرنے کا مقصد کسی بھی خطے کی تہذیب و ثقافت کو قتل کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے کہ زبان صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ پوری انسانی زندگی کی تاریخ، تہذیب و ثقافت اس میں بند ہوتی ہے اور زبان ہی پورے تمدن کا اظہار سمجھی جاتی ہے۔ اگر آپ کسی سے اس کی ماں بولی چھین رہے ہیں تو گویا ماں دھرتی اور ماں بولی کے علم سے دور رکھنے کی کوشش بہت بڑا جرم ہے۔ اپنے ادب، اپنے فوک، اپنی موسیقی سے محروم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس سے اس کی لوک دانش کا اثاثہ چھیننے کی ک، وشش کر رہے ہیں، ایساکر کے آپ اس کا انسانی شرف چھین کر اس میں حیوانیت پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کسی بھی معاشرے کے لوگ تہذیب، تمدن اور زبان ثقافت سے محروم ہوتے ہیں تو پھر ان میں حیوانیت آ جاتی ہے اور پھر حیوانیت کے روپ چیر پھاڑ والے ہوتے ہیں، پھر انسانی معاشرے میں جنگل کا قانون لاگو ہو جاتا ہے، آج کا بحران تہذیبی بحران ہے، ثقافتی بحران ہے اور انتہا پسندی، دہشت گردی اور عدم برداشت اس کے مظاہر ہیں۔