اگر ہمیں حقیقی آزادی حاصل ہوتی تو 9 نومبر کو مفکر پاکستان حضرت علامہ اقبالؒ کی شخصیت اور پیغام کے بارے میں تمام چینلز پر سارا دن پروگرام چلتے، رات سات بجے سے گیارہ بجے تک اقبالیات کے ماہر فکر اقبال کے مختلف پہلوئوں پر گفتگو کر رہے ہوتے۔
کسی چینل پر ان کے اردو کلام پر بات ہورہی ہوتی اور کہیں فارسی کلام کی شرح بیان کی جاتی۔ کسی چینل پر طلوع اسلام، پڑھی جارہی ہوتی اور کسی پر نوجوانوں کو مسجد قرطبہ جیسی شاہکار نظم کے معنی سمجھائے جارہے ہوتے، کسی چینل پر کسی یونیورسٹی کے طلباء "ذوق وشوق" سن رہے ہوتے اور کسی چینل پر آٹھ سے نو بجے تک ابلیس کی مجلس شوریٰ کی تمثیل دکھائی جارہی ہوتی، مگر حقیقی آزادی کہاں حاصل ہے۔
نام کی آزادی ہے مگر خودمختاری نہیں ہے، اہم معاملات میں فیصلوں کا اختیار نہیں ہے، بنیادی اشوز پر اپنی پالیسیاں خود تشکیل دینے میں خودمختاری نہیں ہے، کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ
بے وقار آزادی، ہم غریب ملکوں کی
سرپہ تاج رکھا ہے، بیڑیاں ہیں پائوں میں
ہمیں حقیقی آزادی حاصل ہوتی تو راقم کو مختلف ٹی وی چینلوں کے لوگوں سے رابطہ کرکے اور خطوط لکھ کر یہ کہنا نہ پڑتا کہ "بھائی 9 نومبر کو علامہ اقبالؒ کے بارے میں ایسے پروگرام ترتیب دیں جو ان کے شایان شان ہوں کیونکہ ہماری آزادی، ہمارے حقوق، ہماری جائیدادیں، میڈیا گروپ اور چینلز سب پاکستان کے طفیل ہیں جو علامہ اقبالؒ کے نظرئیے اور محمد علی جناح صاحب کی کوششوں کا ثمر ہے۔
علامہ اقبالؒ پاکستان کے نظریاتی باپ ہونے کے ناتے اس قوم کے عظیم محسن ہیں اس لیے سال میں ایک بار اگر ان پر پروگرام کرنا ہے تو ڈھنگ سے کیجیے اسے فٹیگ سمجھ کر نہ کیجیے، گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے کے لیے نہیں، عقیدت اور محبت سے کیجیے"۔
کچھ کا ردعمل بہت مثبت تھا، جنھوں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اچھا ہوا آپ نے یاد دہانی کرادی ہے ورنہ یہ دن یونہی گزرجاتا۔ کچھ نے خاموشی اختیار کی۔
ایک دو صاحبان نے بتایا کہ "دیکھیں مغربی قوتوں نے جنرل مشرف پر دبائو ڈالا تھا کہ ڈاکٹر اقبالؒ کی نظمیں تعلیمی نصاب سے نکال دیں، آپ کے نوجوان اقبال کو پڑھیں گے تو ان میں غیرت اور حمیت کے جذبات پیدا ہوں گے، ان میں خودی، خودداری اور خودانحصاری کے احساسات بیدار ہوں گے، ان کی خرد پر طاری مغرب کا فسوں ٹوٹ جائے گا، وہ اپنی مسلم تہذیب پر فخر کرنے لگیں گے اور مغربی غلامی سے نکل جائیں گے۔ یہ ان کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔
اگر ہم سے کچھ خیر خیرات چاہتے ہو تو ڈاکٹر اقبالؒ کو کتابوں اور ذرایع ابلاغ سے نکال دو۔ ان قوتوں نے معقول معاوضے پر کچھ ایسے لوگوں کو رکھ لیا ہے جو گاہے بہ گاہے ڈاکٹر اقبال کو اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے متنازعہ بنانے کی کوشش کرتے رہیں گے، آپ بھی ہمارا ساتھ دیں۔ مشرف اسی وقت ڈھیر ہوگیا۔
تعلیمی صورت حال کا ہم کئی سالوں سے مشاہدہ کررہے ہیں، ہمسایہ ملک کی کوئی ڈانسر انتقال کرجائے یا کسی اداکارہ کی منگنی ٹوٹ جائے تو میڈیا پر کئی کئی دن اس کا تذکرہ چلتا ہے۔ جس ملک کے طفیل سب کچھ ملا ہوا ہے، اسی پاکستان کے قیام کی مخالفت کرنے والے شاعروں اور ادیبوں کو ادبی دیوتا بنا کر پیش کیا جاتا ہے مگر مفکّرِ پاکستان سے چشم پوشی برتی جاتی ہے اور سال میں ایک بار انتہائی بددلی کے ساتھ بے ڈھنگے سے انداز میں ذکر کردیا جاتا ہے۔
ایک پارٹی کے چیئرمین نے اپنے ورکروں کو حقیقی آزادی، کا نعرہ تو سکھا دیا مگر کیا ان کے اہداف میں یہ بات شامل تھی جن کا اوپر ذکر ہوا ہے؟ بالکل نہیں۔ اگر ہمیں حقیقی آزادی حاصل ہوتی تو ہمارے سرکاری دفتروں میں خط وکتابت اس زبان میں ہورہی ہوتی جسے بانیٔ پاکستان نے ملک کی قومی زبان قرار دیا تھا۔ اگر ہم جسمانی کے ساتھ ذہنی طور پر بھی آزاد ہوجاتے تو ہمارے سرکاری اداروں کی تربیّت گاہوں کی زبان اردو ہوتی۔
اگر ہم حقیقی آزادی سے ہمکنار ہوتے تو آزاد ہونے کے دو تین سالوں میں ہی ہماری عدالتی زبان اردو ہوجاتی۔ وکلاء اردو زبان میں دلائل دیتے، اردو میں بحث کی جاتی اور جج صاحبان تمام فیصلے اردو میں تحریر کرتے۔ وکلاء ہوں یا جج صاحبان یا بیوروکریٹس انھیں انگریزی میں بات کرتے ہوئے دقت پیش آتی ہے جب کہ اردو میں بات کرتے ہوئے وہ آسانی اور کمفرٹ محسوس کرتے ہیں۔
تو پھر اپنے آپ کو اس کمفرٹ سے محروم کرنے اور مشکل میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا تعلق بھی حقیقی آزادی نہ ملنے سے ہے، ہم سو سال تک جس قوم کے غلام رہے، اس قوم کی غلامی ہمارے رگ وپے میں اس طرح سرایت کرچکی ہے کہ ہم اس کے کلچر، لباس، زبان غرضیکہ ہر چیز کو اپنے سے برتر اور اپنی ہر چیز کو کمتر سمجھتے ہیں۔
شدید احساسِ کمتری کے باعث ہم اپنے سابق مالکان کی زبان کو برتر سمجھتے ہیں اس لیے جو شخص بھی وہ زبان بولتا ہو اسے برتر اور اس میں مہارت رکھنے والے کو انتہائی قابل سمجھتے لگتے ہیں، کچھ تیز طرار لوگوں نے قوم کے اس احساسِ کمتری کو بھانپ لیا، انھوں نے انگریزی بول چال میں مہارت حاصل کرکے اعلیٰ عہدے حاصل کرلیے اور پھر متعلقہ فیلڈ میں نکھٹو ہونے کے باوجود وہ انگریزی کے اوور کوٹ کے نیچے اپنی نالائقیاں چھپانے میں کامیاب رہے۔
اب وہ اپنا اوورکوٹ اتارنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ وہ اترگیا تو ان کی تمام نااہلیاں بے نقاب ہوجائیں گی۔ کیا حقیقی آزادی کے دعویداروں نے اپنے اقتدار میں فکرِ اقبال کو عام کرنے اور اردو کو عدالتی اور دفتری زبان بنانے کے لیے معمولی سی بھی کوشش کی؟ ہر گز نہیں۔
اگر ہمیں حقیقی آزادی حاصل ہوتی تو نئی نسل کی تعلیم وتربیت کے خدوّخال ہمارے اپنے ماہرین تیار کرتے جن میں اساتذہ بھی شامل ہوتے اور وہ دانشور بھی جو بانیانِ پاکستان کے نظریات سے روشناس ہیں اور قیامِ پاکستان کے اصل اہداف کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں۔ اس بات کی تو شاید کوئی غریب سے غریب ملک بھی اجازت نہیں دیتا کہ تعلیمی نصاب باہر سے بن کر آئے گا۔
اگر ہمیں حقیقی آزادی حاصل ہوتی تو ہم یہ فیصلہ کرتے کہ سرکاری اسکول ہوں، دینی مدرسے ہوں یا انگلش میڈیم اسکول۔ تمام تعلیمی اداروں کا نصاب ہم خود تشکیل دیں گے جو قیامِ پاکستان کے نظریے اور قوم کی امنگوں سے ہم آہنگ ہوگا، ہمسایہ ملک میں بھی اور چین میں بھی ایسے ہی ہے وہاں اولیول اور اے لیول کی بالکل اجازت نہیں دی گئی اور نصاب کی تشکیل ریاست خود کرتی ہے۔
کیا حقیقی آزادی کے نعرے بازوں نے اس جانب معمولی سی بھی پیش رفت کی تھی؟ ہر گز نہیں۔ اگر یہاں حقیقی آزادی ہوتی تو ہمارے حکمران بانیانِ پاکستان کے نظریات کے ساتھ پورے اخلاص کے ساتھ وابستہ رہتے اور ذرایع ابلاغ سمیت تمام ادارے انھی اہداف کے حصول کے لیے یکسوئی کے ساتھ کام کر رہے ہوتے۔ مفکّرِ پاکستان اور بابائے قوم کے نظریات کے مخالفین کبھی ابلاغ کے ذرایع پر اس طرح قابض نہ ہوسکتے۔
اقبالؒ کا کہنا ہے کہ دہر میں اسمِ محمدﷺ سے اجالا کردے۔ جناح صاحب اعلان کرتے رہے کہ نئے ملک پاکستان میں اسلام کے سماجی انصاف پر مبنی معاشرہ تشکیل دیں گے، لیکن ذرایع ابلاغ پر ایسا کہنا انتہاپسندی بنادیا گیا ہے۔ وہاں ہر اہم دن پر رول ماڈل کے طور پر یا ایکٹرسوں کو پیش کیا جاتا ہے یا کھلاڑیوں کو۔
اگر حقیقی آزادی حاصل ہوتی تو منی اسکرین پر بہترین ٹیچرز کو گلیمرائز کیا جاتا، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے والوں کو پروجیکٹ کیا جاتا، باضمیر سول سرونٹس کے انٹرویو کرائے جاتے۔ دیانتدار انجینئروں، انسان دوست ڈاکٹروں، اسلام کے جید اسکالرز، شاعروں اور ادیبوں کے خیالات سنوائے جاتے تاکہ نئی نسل اُن سے inspiration حاصل کرتی، مگر لگتا ہے کہ ہمارے ہاں کے ایک طبقے کا ایک ہی ہدف ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو اچھا استاد، سائنسدان، ڈاکٹر، دیانتدار سول سرونٹ، انجینئریا رائٹر بنانے کی ضرورت نہیں وہ یا ڈانسر بنیں یا کرکٹ کھیلیں۔
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں! کیا زندہ قومیں اپنی نئی نسل کی اس طرح تربیّت کرتی ہیں؟ اس قوم کو بلاشبہ حقیقی آزادی کی ضرورت ہے۔ بیرونی آقائوں سے بھی، غلامانہ سوچ سے بھی اور مقامی مافیا زسے بھی، اگریہاں حقیقی آزادی ہوتی تو انتظامی اصلاحات سے متعلق سینیٹ کے پاس کردہ بل غائب نہ ہوتا، کیا حقیقی آزادی کے نعرے بازوں نے اپنے دورِ اقتدار میں عملی طور پر ان امور کی جانب معمولی سی بھی توجّہ دی؟ بالکل نہیں، کیونکہ مقصد حقیقی آزادی حاصل کرنا نہیں، صرف نعرے بیچنا تھا۔