سیاست کے طالب علم اس چیز کو حیرت و استعجاب سے دیکھ رہے ہیں کہ 8 مئی کو بظاہر جو سیاسی پارٹی ملک کی سب سے بڑی پارٹی لگتی تھی، چند ہفتوں میں ہی وہ اس طرح زمین بوس ہوگئی ہے کہ اب کسی شہر یا گاؤں میں اس کا وجود تک نظر نہیں آتا۔
ماضی میں بھی سیاسی پارٹیاں اسٹیبلشمنٹ کے زیرِ عتاب رہی ہیں، ضیاء الحق دور میں پی پی پی کے ورکروں کے ساتھ بہت زیادتیاں ہوتی رہیں، مشرف دور میں نون لیگ کے لیڈروں پر بے تحاشہ تشدد ہوا مگر وہ پھر بھی پارٹی کے ساتھ رہے۔
پی ٹی آئی کے لیڈروں پر تو کوئی تشدد بھی نہیں ہوا، ان کے ایک حامی دوست کے بقول "انھوں نے صرف گھور کر دیکھا تو ہمارے لیڈروں نے پارٹی اور کپتان کو چھوڑ چھاڑ کر دوڑ لگادی اور سیدھے پریس کلب پہنچ کر دم لیا" ا س کی وجہ کیا ہے؟ میں نے اس سوال کا جواب ایسے صاحبانِ عقل ودانش سے پوچھنے کی کوشش کی جو حالات و واقعات کا تجزیہ کرتے وقت اپنی پسند و ناپسند کا چشمہ اتار دیتے ہیں۔ مختلف قسم کے جواب آئے۔
کسی نے کہا کہ یہ پارٹی تو تھی نہیں، یہ تو ایک فَین کلب تھا۔ کسی نے کہا " یہ ہیرو اور اس کے پرستاروں کا گروہ تھا، یہ تعلق مضبوط نہیں ہوتا۔ " کسی کا کہنا تھا" فکری اور نظریاتی بنیاد مضبوط ہو تو پارٹیاں مضبوط ہوتی ہیں، یہاں تو نہ کوئی نظریہ تھا اور نہ ہی کوئی ٹھوس فکری بنیاد، جس کے بغیر مقبولیت عارضی اور ہوائی ہوتی ہے۔ "کچھ لوگوں نے پارٹی کے fall اور زوال کا سبب جنات وعملیات کو قرار دیا۔
کسی نے کہا گھوڑے نے بم کو دولتی ماردی ہے، کسی نے کہا کہ لیڈر میں سیرت اور بصیرت کا فقدان اور تکبر اور نااہلی کا طوفان تھا۔ کچھ حضرات نے یہ بھی کہا کہ زوال کا سبب لیڈر کی دو خصوصیات ہیں، بزدلی اور بے وقوفی۔ گرفتاری کو ہوّا بنانے اور اس سے خوفزدہ ہونے کے بجائے کپتان بہادری سے گرفتاری دیتا اور انتہائی بے وقوفانہ طور پر غلط اندازے لگا کر ورکروں کو غلط ٹارگٹ نہ دیے جاتے تو پارٹی کا یہ حشر کبھی نہ ہوتا۔
بھٹو، ضیاء الحق کو دھمکیاں دیتے ہوئے پھانسی پر جھول گیا، نوازشریف اٹک قلعے کی صعوبتیں برداشت کرتا رہا مگر اس نے مشرف سے ملنے کی درخواست نہیں کی بلکہ آمر نے جدہ میں فون پر بات کرنے کی کوشش کی تو نوازشریف نے انکار کردیا، مگر یہاں تو ملاقات کے لیے ترلے اور منّتیں کی جارہی ہیں، یہ لیڈرانہ نہیں فدویانہ طرزِ عمل ہے۔ لیڈر میں بہادری نظر آئے تو پارٹی کے ستّر فیصد لوگ ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔
راقم ایک اﷲ والے کے گھر کبھی کبھی حاضری دیتا ہے، ان کے ہاں حاضر ہو کر یہ جواب سنائے تو سر جھکا کر سنتے رہے، آخر میں سر اٹھا کر کہا "ان اسباب اور عوامل کی اہمیت بجا، مگر پارٹی اور لیڈر کی بربادی کی سب سے بڑی وجہ اور ہے۔
گزارش کی کہ وہی تو پوچھنے آیا ہوں۔ کہا، سب سے بڑی وجہ ہے اﷲ کی پکڑ۔ وہ ربِّ ذولجلال کی گرفت میں آگیا ہے۔ میں نے وضاحت کرنے کی درخواست کی تو کہا، "ربِّ کائنات کفر اور گناہ کی چھُوٹ دیتا ہے مگر بغاوت اور تکبر کی نہیں۔ باغی اور متکبر کو وہ سزا دیتا ہے۔
انسانوں کے لیے بھیجی جانے والی اپنی آخری کتاب کی سورۃ الحجرات میں خالقِ کائنات نے بڑی وضاحت سے حکم دیا ہے، "ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد کرو، ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے۔
جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہی ظالم ہیں۔ " کسی پر چوٹ کرنا، الزام دھرنا یا نشانہ ملامت بنانا، یہ ایسے افعال ہیں جو معاشرے میں فساد برپا کرتے ہیں، مگر سب نے دیکھا کہ مخالف راہنماؤں کو جلسوں میں تضحیک آمیز القاب سے بار بار پکارا گیا۔ کچھ قریبی لوگوں نے روکنے کی کوشش بھی کی مگر وہ باز نہ آیا۔ " پھر کہنے لگے نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے "جس شخص کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ نہیں ہیں، وہ ہم میں سے نہیں۔ "
لیڈر اپنے پیروکاروں کی اخلاقی اصلاح کرتا ہے۔ نامناسب حرکتوں اور غلط کاموں سے منع کرتا ہے مگر یہاں لیڈر خود ہدایات دیتا ہے جس پر عمل کرتے ہوئے پیروکاروں نے ہاتھوں کو زہر میں بجھے ہوئے تیروں اور زبان کو خنجروں کی طرح استعمال کیا۔
اگر آپ کا کوئی پیارا اسپتال میں موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہو اور اس کا نام لے کر تقریریں کی جائیں کہ وہ بیمار نہیں، ڈرامہ کررہا ہے تو آپ کے دل کو کتنی تکلیف پہنچے گی۔ مخالف سیاسی لیڈر کی اہلیہ بسترِ مرگ پر ہو اور ورکروں کو اسپتال بھیجا جائے اور وہ شیشوں سے جھانک رہے ہوں اور نازیبا آوازے کس رہے ہوں تو یہ حرکت ربِّ کائنات کی ناراضگی کاسبب بنے گی۔
دنیا کا کوئی مذہب، کوئی آئین اور دنیا کے کسی معاشرے کی اخلاقیات آپ کو اجازت نہیں دیتیں کہ کسی سیاسی جماعت کے کارکن یا حامی سیاسی مخالف کے گھر کے سامنے جمع ہو کر بلند آواز میں اسے اور اس کے اہلِ خانہ کو گندی گالیاں دیں۔
سیاسی مخالف کے گھر کا کوئی فرد باہر نکلے تو ایک پارٹی کے قائد کے پیروکار اس کے پیچھے لگ جائیں، اس پر آوازے کسیں، گالیاں دیں اور ان کا جینا دوبھر کردیں۔
لندن میں جو کچھ کیا جارہا ہے، یہ پست ذہنیت کے لوگوں کی تسکین کا باعث تو بن سکتا ہے مگر ایسا کرنے والے اور ایسے قبیح فعل کی ہدایات دینے والے یقیناً اﷲ کی ناراضگی اور غصّے کو دعوت دیتے رہے ہیں۔ خالقِ کائنات اپنی مخلوق کی چھوٹی موٹی خطائیں برداشت کرلیتا ہے مگر اس کے کسی بندے پر صریحاً ظلم کرنے والا خالق کے غیض وغضب کو للکارتا ہے اور پھر اسے دنیا میں ہی سزا ملتی ہے۔
اگر حاکمِ وقت اپنے سیاسی مخالف کو کسی ایسے بے بنیاد مگر سنگین کیس میں ملوث کردے جس کی سزا موت ہوتو اس سے بڑا ظلم کیا ہوسکتا ہے؟ ہر شخص جانتا ہے کہ کیس جھوٹا ہونے کی بنا پر ناکام ہوگیا، مگر بنوانے والوں نے تو ظلم کے ارتکاب میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔
جس سیاستدان کو جھوٹے کیس میں سزائے موت دلانے کا پروگرام بنایا گیا تھا، اس کی بیوی نے جب ہاتھ اٹھا کر اﷲ سے انصاف مانگا تو اُس خاتون کی وہ فریاد آسمانوں کو چیر کر دربارِ الٰہی میں پہنچی ہوگی اور اسی وقت ظالموں کو سزا دینے کا فیصلہ ہوگیا ہوگا۔
پھر اُس وقت تو تمام حدود کو ہی توڑ دیا گیا جب سیاسی مخالفوں کی توہین کرنے کے لیے مسجدِ نبویؐ اور آقائے دوجہاں کی آخری آرام گاہ کے تقدس کو پامال کیا گیا۔
یوں سمجھ لیں کہ ربِّ کائنات کی ریڈ لائن کراس کی گئی، لیکن اس شیطانی حرکت کی نہ مذمت کی گئی نہ معافی مانگی گئی۔
اﷲ کے بہت سے نیک بزرگوں نے اُسی روز کہہ دیا تھا کہ اِس سانحہ کے منصوبہ سازوں اور ہدایت کاروں کو اب ڈھیل نہیں دی جائے گی اور انھیں دنیا میں ہی نشانِ عبرت بنادیا جائے گا۔ دیکھیں! خالقِ کائنات نے اپنے محبوب حضرت محمدﷺ کے لیے پروٹوکول خود بنائے ہیں۔
کائناتوں کے خالق اور مالک نے خود حکم دیا ہے کہ میرے نبیؐ سے آگے مت چلیں، چلتے وقت میرے نبیؐ سے پیچھے رہیں اور بات کرتے وقت اپنی آواز نبیؐ کی آواز سے مدہم رکھیں، بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ مسجد نبوی میں کبھی اونچی آواز سے نہیں بولے، کبھی کسی نے روضۂ رسولؐ کے قریب دعا بلند آواز سے نہیں مانگی، صدیوں سے درود وسلام بھی مدہم آواز میں پڑھا جاتا ہے، مگر چند بدبختوں نے محض اپنے سیاسی مخالفوں کو بے عزت کرنے کے لیے مقدس ترین مقامات کا تقدس پامال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا، اس پر اللہ کی پکڑتو ہونی تھی۔
انسانوں میں سے اﷲ کو جو لوگ سب سے عزیز ہیں وہ قافلۂ شہدا ہے، 9 مئی کو شہیدوں کی نشانیوں کو جس طرح جلایا اور تباہ کیا گیا، اس پر بھی مجرم اﷲ کی گرفت سے بچ نہیں سکتے تھے، لہٰذا یہ اﷲ کی گرفت میں آچکے ہیں۔
مستقبل قریب میں بچنے کا امکان نہیں ہے، ہاں سچّے دل سے کی گئی توبہ اور گڑگڑا کر اﷲ سے مانگی گئی معافی تقدیر بدل بھی سکتی ہے۔ یاد رکھیں آج ایک پکڑ میں آیا ہے تو کل دوسرے بھی آسکتے ہیں۔