دنیا میں ایمان کے بعد سب سے بڑی دولت اور نعمت آزادی ہے، جس کے لیے قومیں اپنی کئی نسلیں قربان کردیتی ہیں۔ ہمیں آزادی کسی طویل جدوجہد اور صعوبتوں کے بغیر مل گئی، اس لیے ہمیں اس نعمت کی قدر نہیں۔ اختر شیرانی کیا خوب کہہ گئے
عشق و آزادی ہماری زیست کا سامان ہے
عشق میری جان، آزادی مرا ایمان ہے
عشق پر اخترؔ لٹادوں اپنی ساری زندگی
اور آزادی پہ میرا عشق بھی قربان ہے
غلامی کتنی بڑی لعنت ہے، اس کا ہماری نئی نسل کو ذرا بھی ادراک نہیں، باہر رہنے والے پاکستانیوں میں سے کچھ عقل وشعور سے اتنے عاری ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ آزادی کوئی چاولوں کی پلیٹ ہے یا کپڑوں کا جوڑا ہے کہ گھر کے بڑوں کی کوئی بات پسند نہ آئی تو ناراض ہو کر کہہ دیا "نہیں چاہیے مجھے چاول"، "میں نہیں پہنوں گا یہ کپڑے، لے جائیں مجھے نہیں چاہیے یہ تحفہ"۔
کچھ لوگ تو ہمسایہ ملک سے مال کھاتے ہیں اس لیے اس کی دی ہوئی ڈیوٹی پوری کرتے ہوئے پاکستان اور بانیانِ پاکستان کے خلاف بھی بدزبانی سے باز نہیں آتے، کچھ کو ابوالکلام آزاد کی پیشنگوئیاں یاد آنے لگتی ہیں، اور کچھ جنونی ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہماری پسند کی پارٹی اقتدار میں نہیں ہے تو پھر ہمارا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
کچھ گمراہی میں اس حد تک آگے چلے گئے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ "ہمارا لیڈر ملک کے آئین اور قانون سے بالاتر ہے، نہ اس کے خلاف کیس درج ہونا چاہیے اور نہ ہی اسے گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ اگر اس کے خلاف کیس درج ہوا یا وہ گرفتار ہوا تو پھر ہمارا یومِ آزادی سے کوئی تعلق نہیں"۔ او بدبختو! حکمران آتے جاتے رہتے ہیں مگر پاکستان تو اپنا گھر ہے:
؎
جس طرح کی ہیں یہ دیواریں یہ درجیسا بھی ہے
سر چھپانے کو میسّر ہے گھر جیسا بھی ہے
اِس کو مجھ سے، مجھ کو اِس سے نسبتیں ہیں بیشمار
میری چاہت کا ہے محور یہ نگر جیسا بھی ہے
ایسا سمجھنے والے کچھ شدید قسم کے جنونیوں نے پاکستان کے پاسپورٹ پھاڑدیے اور قومی پرچم کی بھی توہین کی ہے، اگر یہ کسی بیرونی ایجنڈے کی تکمیل نہیں کر رہے (جو خارج از امکان نہیں) تو پھر ان کی عقل اور آنکھوں پر پردہ پڑچکا ہے اور دل پر مہریں لگ چکی ہیں۔
مہنگائی کے مسائل تو دنیا میں ہر جگہ موجود ہیں، یورپ میں بھی مہنگائی شہریوں کو بہت تنگ کرتی ہے، وہاں بھی مخالف لیڈر برسرِاقتدار آجاتے ہیں، مگر وہاں کے شہری اتنے کم عقل اور بے شعور نہیں کہ مخالفین کے برسرِ اقتدار آنے پر اپنی آزادی پر ہی انگلیاں اٹھانی شروع کردیں اور قومی پرچم کی توہین کرنے لگیں۔
اگر یہ لوگ ہندوستان یا کشمیر جاکر چند روز رہ نہیں سکتے تو عالمی میڈیا اور بھارت کے چند باضمیر صحافیوں کے ذریعے ہی معلوم کرلیں کہ مولانا ابوالکلام آزاد اور کانگریس کے حامی علماء کے پیروکاروں کا بھارت میں کیا حال ہے؟ ارون دھتی رائے جیسی باضمیر رائٹر کے بقول ان کی اولاد بھارت میں صرف زندہ رہنے کے لیے اپنے مسلم تشخص سے دستبردار ہورہی ہے اور اپنے اسلامی نام تبدیل کرنے پر مجبور ہے، کیونکہ اسلامی ناموں کے ساتھ اب ہندوستان میں زندہ رہنا ممکن نہیں رہا۔
قومی پرچم کی توہین کرنے والے بدبختوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ کوئی پارٹی اور کوئی لیڈر وطنِ عزیز سے برتر اور محترم نہیں۔ آزادی پر ایک نہیں سو پارٹیاں قربان! وطنِ عزیز پر ایک نہیں ہزار لیڈر قربان کیے جاسکتے ہیں۔ جب بانیٔ پاکستان چلے گئے تو دوسرے کس کھیت کی مولی ہیں۔ بابائے قوم کے بعد بھی پاکستان قائم ودائم ہے۔
اپنے آپ کو ناگزیر سمجھنے والے ہزاروں لیڈر ختم ہوجائیں گے مگر پاکستان انشاء اﷲ قیامت تک قائم ودائم رہے گا۔ اوورسیز پاکستانیوں پر یہ لازم ہے کہ وہ پاکستانی پاسپورٹ پھاڑنے والوں اور قومی پرچم کی توہین کرنے والے ان پاکستان دشمنوں کی بھرپور مذمّت کریں اور انھیں اپنی صفوں سے نکال باہر کریں۔ حکومت کو چاہیے کہ ان کی پاکستانی شہریّت منسوخ کردے اور انھیں پاکستان دشمنوں کے ٹائٹل سے یاد کیا جائے۔
پاکستان کی مخالفت کرنے والے اور کانگریس اور نہرو کا ساتھ دینے والے مسلمانوں میں سب سے قدآور شخصیّت مولانا ابولکلام آزاد کی تھی، اس کے بعد شیخ عبداللہ اور عبدالغفار خان (سرحدی گاندھی)تھے۔ تینوں نے اپنی زندگی میں ہی کانگریس کی بدلی ہوئی نظروں اور ہندو قیادت کے مخاصمانہ رویے کا مشاہدہ اور تجربہ کرلیاتھا۔
شیخ عبداللہ تو اپنے دوست نہرو کے ہاتھوں گیارہ سال قید رہے، عبدالغفار خان کانگریس کے رویے سے بے حد نالاں رہے اور اپنی ناراضگی کا اظہار جلسوں اور تقریروں میں بھی کرتے رہے۔ مولانا ابوالکلام کو کابینہ میں ایک وزارت ضرور دے دی گئی مگر نہ ان کا کوئی اختیار تھا اور نہ کوئی وزن اور اہمیّت۔ ان نامساعد حالات کی وجہ سے وہ پریشانی، دل گرفتگی اور فرسٹریشن کا شکار ہوگئے اور گوشہ نشینی میں چلے گئے۔
کانگریس کے ہمنواؤں میں سے کوئی ایک بھی مسلم راہنما ایسا نہیں ہے جو اپنے "خوابوں کی جنّت" ہندوستان میں رہ کر مطمئن اور خوش رہا ہو۔ یہاں تک کہ ان کی فلم انڈسٹری کا بے تاج بادشاہ دلیپ کمار (یوسف خان) بھی آخری سالوں میں ان کے متعصّبانہ رویّے کا شکار اور شاکی رہا اور موجودہ خان (جو اب نام کے ہی مسلمان ہیں) یعنی شاہ رخ اور سلمان خان بھی محض اپنے ناموں کی وجہ سے ان کے امتیازی سلوک کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔
ویسے انھوں نے اپنی مسلمانی چھپانے کے لیے ہندو لڑکیوں سے شادیاں کر رکھی ہیں، پاکستان کے خلاف بھی ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں مگر پھر بھی وہ ان کی وفاداری پر شک کرتے ہیں اور انھیں تنگ کرتے رہتے ہیں۔ افسوس ہے کہ اِن حالات کی آزاد صاحب کوئی پیشنگوئی نہ کرسکے۔ مسلمانوں کی یہ ناگفتہ بہ حالت آج اُس وقت ہے جب کہ ہندوستان میں اُن کی تعداد پچیس کروڑ سے زیادہ ہے۔
علّامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کی بصیرت نے آنے والے حالات کو اچھی طرح بھانپ لیا تھا کہ ہندوستان میں آبادی کی اکثریت کی وجہ سے حکومت ہندؤں کی ہوگی لہٰذا بھارت میں ہندو حکمران ہوں گے اور مسلمان اُن کے غلام۔ اسی لیے انھوں نے مسلمانوں کے اسلامی تشخص کی حفاظت اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک علیحدہ ملک کا مطالبہ کیا اور اسے حاصل کرکے دم لیا، جس کیوجہ سے آج برصغیر کے چالیس کروڑ (پاکستان اور بنگلہ دیش کی مشترکہ آبادی) مسلمان آزا دہیں اور ان کا اسلامی تشخص محفوظ ہے۔
اﷲ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں نازل ہوں، ہمیں آزادی سے ہمکنار کرنے والے ہمارے محسنوں کی روحوں پر۔ اﷲ تعالیٰ علامہ اقبالؒ، محمد علی جناحؒ صاحب، نواب بہادر یار جنگ، لیاقت علی خان، محترمہ فاطمہ جناح، عبدالّرب نشتر، مولاناشبیر احمد عثمانی، ظفر احمد عثمانی، حمید نظامی، مولانا عبدالستار نیازی، قاسم رضوی اور ان کے ہزاروں ساتھیوں کے درجات بلند فرمائیں جنھوں نے ہمیں پاکستان کی صورت ایک انتہائی خوبصورت تحفہ عطا کیا۔
یہ درست ہے کہ ہم نے اپنی نالائقیوں سے اس تحفے کا حلیہ بگاڑ دیا، اسے گندا کردیا اور اسے توڑ دیا ہے۔ مگر ہم ہی اس عظیم نعمت کے امین اور وارث ہیں، یہ ہم پر ہے کہ ہم اسے بگاڑتے ہیں یا سنوارتے ہیں اور اسے مضبوط اور مستحکم بناتے ہیں یا برباد کرتے ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب "India wins freedom" میرے سامنے ہے۔ انھوں نے ہدایت کی تھی کہ اس کے کچھ صفحات ان کی وفات کے تیس سال بعد شایع کیے جائیں۔ آزاد صاحب 1959میں انتقال کرگئے اور اس کے تیس سال بعد ان کی مکمل کتاب شایع ہوئی جس کے چند اہم اقتباس میں قارئین کے ساتھ شیئر کررہا ہوں۔
اپنے دوست پنڈت نہرو کے بارے میں صفحہ نمبر 209 پر لکھتے ہیں"جواہر لال میں خود پسندی بہت ہے اور وہ برداشت نہیں کرسکتے کہ کسی اور کو ان سے زیادہ تعاون ملے یا اس کی زیادہ تعریف کی جائے۔
جواہر لال میں یہ کمزوری بھی ہے کہ وہ مصلحتوں کو بہت اہمیّت دیتے ہیں اور کچھ لوگوں نے ان کی اسی کمزوری کا فائدہ اُٹھا کر انھیں میرے خلاف کرنے کی کوشش کی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بمبئی میں کانگریس ورکنگ کمیٹی کے اجلاس کے دوران کم وبیش ہر معاملے پر انھوں نے میرے طرزِ عمل کی مخالفت شروع کردی"۔ (جاری ہے)