طالب علم: سر زندگی کیسے وجود میں آئی ہے؟ سائنسدان: زندگی مادے سے وجود میں آئی ہے۔
طالب علم: سر مادہ کیسے وجود میں آیا ہے؟ سائنسدان: ہر چیز living organism سے پیدا ہوئی ہے۔ طالب علم: سر living organism کے لیے لائف کا ہونا ضروری ہے، سوال یہ ہے کہ اس لائف کو کس نے تخلیق کیا ہے؟ سائنسدان: اس پر تحقیق ہو رہی ہے مگر فی الحال کوئی حتمی جواب نہیں دیا جا سکتا۔ طالب علم: سر! کچھ سائنسدان کہتے ہیں کہ یہ کائنات بغیر کسی خالق کے اپنے آپ تخلیق ہوگئی ہے۔ کیا اپنے آپ تخلیق ہونے کی کوئی اور مثال بھی موجود ہے۔ سائنسدان: نہیں ایسا تو ممکن نہیں ہے۔
طالب علم: سر! پھر یہ پوری کائنات خود بخود کیسے وجود میں آگئی؟ سر! آٹومیٹک مشینری کو چلانے کے لیے بھی کوئی بٹن دبانے والا اور کوئی کنٹرول یا monitor کرنے والا ہونا چاہیے۔ جدید دور کے روبوٹس حیرت انگیز کام کرنے کی صلاحیّت رکھتے ہیں مگر انھیں بھی کسی سائنسدان نے تخلیق کیا ہے، ان کے اندر یہ صلاحیت کسی انجینئر نے پیدا کی ہے، اسی طرح کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ کائنات بھی خود بخود پیدا نہیں ہوئی بلکہ یہ کسی عظیم خالق کی تخلیق ہے جو بہت بڑا سائنسدان بھی ہے، ایک عظیم انجینئر بھی ہے اور بے حد طاقتور ایڈمنسٹریٹر اور منتظم بھی ہے۔
سائنسدان: you have a point. (آپ کی بات میں وزن ہے)طالب علم: کچھ سائنسدان کہتے ہیں کائنات Big bang سے وجود میں آئی ہے۔ سر! دھماکے سے تو ہر شے منتشر ہو جاتی ہے، بکھر جاتی ہے مگر یہاں تو ہر چیز perfection سے بھی آگے کی حد تک منظم اور ڈسپلنڈ ہے۔ کیا کسی منتظم اور کنٹرولر کے بغیر بھی ایسا ہو سکتا ہے؟ سائنسدان: آپ کی دلیل کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بہت سے سائنسدان اب کسی supernatural force کا وجود تسلیم کرتے ہیں۔
طالب علم: سر! کیا یہ درست نہیں، کہ نسلِ انسانی کی بقاء کے لیے جس چیز کی جتنی مقدار میں ضرورت ہے، اُس کا اتنا بندوبست کردیا گیا ہے۔ یہ کس نے کیا ہے؟ سائنسدان: ہاں انسانوں ہی نہیں حیوانوں کو بھی زندہ رکھنے کے لیے enabling environment موجود ہے، یا اس کا انتظام کیا گیا ہے۔ طالب علم: ڈاکٹر کہتے ہیں کہ انسانی تخلیق کا پراسیس دیکھ کر بھی جو کہے کہ یہ کسی بڑی طاقت کی تخلیق نہیں، وہ عقل سے فارغ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی ایسی چیز جس کا کوئی خاص purpose ہے اور خاصfunction بھی ہے، وہ اپنے آپ نہ کبھی وجود میں آئی ہے اور نہ آسکتی ہے۔
سر! انسان کے اعضاء اور ان کے functions پر غور کریں، تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ گوشت یا سخت خوراک کھانے کی ضرورت پڑتی ہے تو اس کے لیے منہ میں دانت لگا دیے جاتے ہیں۔ زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کی ضرورت ہے تو آکسیجن کی مطلوبہ مقدار بھی فراہم کردی گئی ہے اور اسے جسم کے اندر لیجانے کے لیے ناک لگادی گئی ہے۔ جسم کے اندر مختلف فیکٹریاں چل رہی ہیں اور حیرت انگیز قسم کی manufacturing ہو رہی ہے۔
خوراک کے مفید حصے سے ایک سیال چیز بنتی ہے جسے خون کہتے ہیں، خون کو اندر ہی فلٹر کیا جاتا ہے اور جسم کے ہر خلیے تک پہنچایا جاتا ہے۔ دنیا کے تمام سائنسدان مل کر خون کی ایک بوند نہیں تخلیق کر سکے۔ اگر کسی مکان، عمارت یا رہائشی کالونی سے نکاسی آب کا بندوبست نہ کیا جائے تو گندا پانی جمع ہو جاتا ہے اور بدبو کی وجہ سے وہاں رہنا ممکن نہیں رہتا۔ کیا کسی جگہ نکاس یا اخراج کا انتظام خود بخود ہو جاتا ہے؟ یا اس کے لیے آرکیٹیکٹ، انجینئر اور مستری اسکیم بناتے ہیں اور پھر اس پر عمل درآمد کرنا پڑتا ہے۔ سائنسدان: ہاں ایسے ہی ہوتا ہے۔
سر! غور تو کریں کہ انسانی جسم سے خوراک کے فالتو حصے (فضلے) کے اخراج اور نکاس کا کیسا بہترین انتظام کیا گیا ہے۔ کیا یہ خودبخود ہوگیا ہے؟ دنیا کے کسی مقام پر بھی ایسا انتظام خود بخود ہوتے ہوئے، ہزاروں سالوں میں کہیں نہیں دیکھاگیا۔ سر! انسانی نسل کے تسلسل کے لیے ضروری ہے کہ انسانی بستیوں میں مرد اور عورتیں دونوں پیدا ہوں۔ ایسا کیوں نہیں ہوا کہ کسی ملک میں صرف مرد پیدا ہو گئے اور اور کسی براعظم میں صرف عورتیں پیدا ہوگئیں، اس لیے کہ کسی خالقِ اعظم کو اپنی گرینڈ اسکیم کے تحت انسانی نسل کی بقاء اور تسلسل مطلوب ہے۔
سر! انسان کی ساخت ہی کو بغور دیکھیں، اگر آنکھیں گھٹنوں کے پاس ہوتیں، ناک کمر میں ہوتی، منہ پشت پر ہوتا، سر کی جگہ پاؤں ہوتے تو یہ مخلوق کیسی لگتی اور اگر پیٹ ٹرانسپیرنٹ ہوتا اور اندر کا سارا گند نظر آ رہا ہوتا اور ہر طرف بدبو پھیل رہی ہوتی تو انسان ایک دوسرے کو ملنے یا دیکھنے کے روادار نہ ہوتے۔ کس نے جلد کے پردے سے پیٹ اورمعدے کو ڈھانپنے کا بہترین انتظام کر دیا ہے؟ کیا دل سے یہ آواز نہیں اٹھتی کہ واقعی کسی عظیم ترین مصور نے انسان کو ایسی بہترین ساخت دی ہے کہ جو عضو جہاں ہونا چاہیے تھا، وہیں لگایا گیا ہے۔
کیا خودبخود ایسا ہونا ممکن ہے؟ قطعاً نہیں بلکہ دل اس عظیم ہستی کے دعوے کو تسلیم کرتا ہے کہ "ہم نے انسانوں کو بہترین ساخت میں تخلیق کیا ہے۔ " سر! اگر کشش ثقل نہ ہوتی تو انسان فضا میں ہی اڑتے رہتے۔ کیا یہ سب کچھ خود بخود ہوگیا ہے یا ان چیزوں کو کسی بے پناہ قوت اور حکمت والے خالق نے تخلیق کیا ہے، جو خالق بھی ہے اور عظیم ترین ایڈمنسٹریٹر بھی۔ جو اپنی تخلیقات کو اپنی بے اندازہ قوت اور حکمت کے ساتھ کنٹرول کر رہا ہے۔
سائنسدان: یہ درست ہے کہ اب بہت سے سائنسدان یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ کوئی نظر نہ آنے والی قوت (FORCE) ضرور ہے، خود بخود والی بات کہنے والے سائنسدان اب بہت کم رہ گئے ہیں۔ طالب علم: سر کیا آپ جانتے ہیں کہ اب تک صرف ایک ہستی نے زمین و آسمان اور پوری کائنات کا خالق ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
اس ہستی نے اپنے آخری پیغمبر پر جو کتاب نازل کی ہے، وہ پندرہ سو سال پہلے نازل ہوئی تھی۔ پندرہ سو سال پہلے نازل ہونے والی کتاب میں انسان کی تخلیق کے مختلف مدارج بھی بتا دیے گئے اور یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ "ہم نے ہر چیز کو پانی سے پیدا کیا ہے۔ " سائنسدان: کیا واقعی ایسا ہے؟ Its amazing سائنسدانوں اور ڈاکٹروں کو تو ان حقائق کا ابھی جا کر پتہ چلا ہے۔ طالب علم: آپ جسے غیبی فورس کا نام دیتے ہیں، اس نے اپنی کتابوں میں اپنا تعارف کرایا ہے کہ وہ ہر چیز کا خالق اور ربّ العالمین ہے، وہ انسانوں کی جانب اپنے messenger بھیجتا رہا ہے، جو ہزاروں سال کے وقفے سے آتے رہے ہیں مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سب کا پیغام یکساں ہے، سب ایک اللہ کے خالق ہونے اور آخرت میں انسانوں کی accountability کی بات کرتے ہیں۔ کیا صدیوں کے وقفے سے آنے والے پیغمبروں کے پیغام کے بنیادی نکات کی مماثلت حیران کن نہیں ہے؟
سائنسدان: بالکل ہے۔ مگر سائنسدان صرف اُس چیز پر یقین رکھتے ہیں جسے وہ اپنے حواس سے دیکھ لیں یا محسوس کر لیں۔ طالب علم: کیا کسی سائینسدان نے خدا کے عدمِ وجود کا مشاہدہ کرلیا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر خدا کے وجود سے انکار کرنا غیر سائنسی رویہ نہیں ہے؟ سائنسدان: میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں، اگر خدا کا وجود سائنسی طور پر ثابت نہیں تو عدمِ وجود بھی ثابت نہیں ہے۔ یہ کہنا کہ خدا کا وجود نہیں ہے، غیر سائنسی بات ہے مگر مسلمان جسے اللہ اور رب کہتے ہیں وہ پردے ہٹا کر سامنے کیوں نہیں آتا تاکہ مسئلہ ہی حل ہو جائے۔
طالب علم: یہی تو امتحان اور آزمائش ہے۔ وہ اپنی کتاب میں بار بار کہتا ہے میں اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو اپنا پیروکار بنا دیتا مگر میں انسانوں کا امتحان لینا چاہتا ہوں۔ جب وہ سامنے آجائے گا اُس روز امتحان ختم ہوچکا ہوگا، وہی تو Day of Judgement ہوگا۔
سر، آپ کُھل کر بتا دیں کہ آپ کے شعور کے مطابق زیادہ probability خود بخود پیدا ہونے کی ہے یا اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ کسی عظیم الشان خالق نے انسان اور کائنات کو تخلیق کیا ہے اور وہی اسے کنٹرول کر رہا ہے۔ سائنسدان: very frankly خود بخود والا امکان بہت ہی کم ہے۔ طالب علم: سر کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ کچھ سائنسدان تعصّب، بغض، ضد اور ردِ عمل کی وجہ سے بھی خدا کے وجود کا کھل کر اقرار نہیں کرتے؟ سائنسدان: ہاں یہ درست ہے کہ کچھ سائنسدان سمجھتے ہیں کہ ھم نے خدا کے وجود کو تسلیم کر لیا تو باقی مذاہب سے زیادہ صرف اسلام کو تقویت ملے گی اور چونکہ ان کی تربیّت اور شخصیت کی تشکیل ایسے ماحول میں ہوئی ہے جس میں ان کے ذھنوں میں یہ ڈالا گیا ہے کہ مسلمان تم سے حقیر بھی ہیں اور تمہارے دشمن بھی۔ اس لیے خدا کے اقرار کی راہ میں تعصب اور عناد بھی ایک رکاوٹ ہے، میں اس سے انکار نہیں کرتا۔
طالب علم: سر آپ کا بہت شکریہ