آج قائدؒ کا یومِ وفات ہے اور شرمندگی کے مارے ان کی تصویر سے بھی نظریں ملانے کی ہمت نہیں ہورہی۔ اُس نحیف و نزار، استقامت کے پہاڑ اور پاکیزہ کردار شخص نے اپنا وقت، صحت، پرائیویٹ لائف، ذاتی وسائل، سب کچھ قربان کرکے ہمیں پاکستان کی صورت میں کتنا خوبصورت تخفہ دیا تھا مگر ہم نے اسے اپنی ہوس، لالچ، اناؤں اور نالائقیوں کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔
چمن کی تباہی کے تمام ذمّے داران جب تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے تو غیر جانبدار مورخین کا قلم سب سے زیادہ ذمّے داری چمن کے مالیوں اور باغبانوں پر ہی ڈالے گا، جب خود باغبان بجلیوں اور طوفانوں کی سہولت کار بن جائیں تو حفظِ چمن کیسے ہوگا؟
بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں
کچھ باغباں تھے برق وشرر سے ملے ہوئے
برق و شرر کو یہ سہولت کار میسر نہ آتے تو آج پاکستان G-20 کا رکن ہوتا۔ چاہے ان کا تعلق کسی بھی ادارے سے ہو مگر اُن باغبانوں کا احتساب ضرور ہونا چاہیے اور انشاء اﷲ ضرور ہوگا۔
پولیس کے جوانوں کو ہر گاؤں اور ہر بستی میں تعیّنات نہیں کیا جاسکتا مگر محکمے اور پولیس کمانڈر کی ساکھ، رعب اور خوف کی وجہ سے لوگ جرائم کا ارتکاب کرنے سے اجتناب کرتے ہیں۔
یہی حال ریاست کا ہے، ریاستی ادارے (صوبائی اور مرکزی دونوں) چوکس رہیں تو شہریوں کی جان ومال محفوظ رہتے ہیں اور سرکاری دفتروں میں جوابدہی کے احساس اور ڈر کی وجہ سے ڈسپلن اور سروس ڈلیوری بھی بہتر رہتی ہے۔
مگر جونہی ریاستی ادارے سست روی کا شکار ہوجائیں، یعنی ریاست پسپائی اختیار کرلے اور اس کی موجودگی کا احساس ختم ہونے لگے تو سرکاری اہلکاروں میں جوابدہی کا احساس ختم ہوجاتا ہے۔ جب "کوئی پُچُھن والا نئیں" کا احساس پیدا ہونے لگے، تو اسی وقت سرکاری ادارے بے سمت ہو کر زوال کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے وطنِ عزیز کے ساتھ یہی ہورہا ہے۔
صوبائی اور مرکزی حکام کی گرفت ڈھیلی ہوئی تو ہرادارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگا جس کے بعد نہ ڈالر پر گرفت قائم رہ سکی اور نہ مہنگائی پر کنٹرول رہ سکا۔
ایسی صورتِ حال کا سب سے خطرناک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جرائم پیشہ عناصر اور اوباش لوگ بے خوف ہوکر مجرمانہ سرگرمیاں تیز کردیتے ہیں اور شہری غیر محفوظ ہوجاتے ہیں۔ جب کوئی پوچھنے والا نہ رہے تو ملک میں مہنگائی، بدامنی اور لاقانونیّت کا راج قائم ہوجاتا ہے۔
چند دنوں سے ریاست نے اپنی موجودگی کا احساس دلانا شروع کیا تو بہتری کی علامات نظر آنے لگی ہیں۔ ہر شخص کہہ رہا تھا کہ پاکستان سے ڈالر، چینی اور اجناس اسمگل ہو کر افغانستان جارہی ہیں مگر ہمارے سول حکمران اسمگلنگ کی روک تھام میں مکمل طور پر ناکام رہے، بارڈرز کا کنٹرول چونکہ عسکری حکام کے پاس ہے۔
اس لیے یا تو وہ عسکری حکام کوا سمگلنگ کی روک تھام کے لیے موثر کارروائی کرنے کی ہدایات دینے کی بھی جرأت نہیں رکھتے تھے یا پھر اسمگلنگ کی روک تھام ان کی ترجیحات میں ہی نہیں تھی۔
اعلیٰ حکام کو جب بھی بجلی کے مسائل کے بارے میں بریفنگ دی جاتی تھی، انھیں یہ بتایا جاتا تھا کہ کئی صوبوں میں بڑے پیمانے پر بڑے منظم انداز میں بجلی چوری ہورہی ہے مگر حالیہ سالوں میں اس طرف پی ٹی آئی یا پی ڈی ایم کی حکومتوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ اگر سول حکام اپنی ذمے داری سے عہدہ برآ نہ ہوں اور اس کے نتیجے میں ملک زوال اور بربادی کا شکار ہونے لگے۔
تو ظاہر ہے کہ عوام فوج کی جانب دیکھیں گے اور عسکری قیادت سے کہیں گے کہ وہ آگے بڑھ کر ملک کو بربادی سے بچائیں۔ چنانچہ فوجی کمان نے چند روز سے اسمگلنگ اور بجلی چوری کو روکنے کے لیے جو آپریشن شروع کیا ہے، اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ جہاں بھی اور جب بھی سخت ایکشن ہوگا فوری طور پر اس کے اچھے نتائج نکلیں گے مگر ان نتائج کا طویل عرصے تک برقرار رہنا یعنی اُن کی sustainability سب سے بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پوری قوم ہی اخلاقی پستی کا شکار ہے۔
ان حالات میں چراغ لے کر ڈھونڈنے نکلیں تو بھی ایماندار اور بے لَوث انسان ملنا مشکل ہوتا ہے مگر حکمرانوں میں نیک نیتی اور اخلاص ہو تو اﷲ تعالیٰ خود اسباب پیدا کردیتے ہیں۔ کچھ محنت اور تگ ودو کرنے سے باکردار افسران مل سکتے ہیں۔
اس آپریشن کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اس میں حصہ لینے والے فوج اور سول کے افسران ایماندار بھی ہوں اور جراتمند بھی۔ وہ کسی ارب پتی یا کسی با اثر شخص کے دباؤ میں ہرگز نہ آئیں۔ اور اگر آپریشن کرنے والے اہلکاروں میں سے کوئی رشوت لیتا ہوا پکڑا جائے تو اسے نشانِ عبرت بنادیا جائے۔
چونکہ اس سارے آپریشن کی قیادت عسکری اداروں کے ہاتھوں میں ہے اس لیے اسے اپنی ساکھ قائم کرنے اور عوام کا اعتماد اور سپورٹ حاصل کرنے کے لیے قابلِ تقلید مثالیں پیش کرنا ہوں گی اور احتساب اپنے ادارے سے شروع کرنا ہوگا۔
اس وقت موجودہ سیٹ اپ کے سامنے دو بڑے چیلنجز ہیں۔ ایک معیشت کی بحالی یعنی اسے آئی سی یو سے نکالنا اور دوسرا عوام کو بجلی کے بلوں اور مہنگائی کے طوفان سے بچانا۔ اسی سلسلے میں کُنڈا مافیا کے خلاف بھی آپریشن کیا جارہا ہے جو قابلِ تحسین ہے۔
مگر میں رات کو یوٹیوب پر ایک غریب عورت کا ردِّعمل سن رہا تھا وہ کہہ رہی تھی کہ "اگر حکومت ان بڑے بڑے ججوں، جرنیلوں، بیوروکریٹوں اور سیاستدانوں کو مفت بجلی دیتی ہے جو اتنے امیر ہیں کہ آسانی سے بل دے سکتے ہیں تو ہم غریبوں کے کُنڈا لگوا کر مفت بجلی لینے پر کیوں اعتراض کرتی ہے، ہم میں تو بل ادا کرنے کی سکت بھی نہیں ہے۔ "
کُنڈا لگانے یا سرے سے بل نہ دینے (بہت سے قبائلی علاقوں میں لوگ بجلی کا بل ہی نہیں دیتے) والوں کا یہ جواز اس وقت ختم ہوگا جب حکومت واضح طور پر اعلان کردے گی کہ آج کے بعد کسی کو بھی مفت بجلی نہیں ملے گی۔ مفت بجلی اور مفت پٹرول کی سہولت فوری طور پر ختم ہونی چاہیے۔
اس سلسلے میں ایک دن کی تاخیر بھی اب قوم کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ پچھلی بار بھی لکھا تھا کہ جب ملک اتنے بڑے بحران کا شکار ہوجائے تو قوم کے ہر طبقے کو ایثار اور قربانی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، زیادہ وسائل رکھنے والے اور خوشحال طبقے کو زیادہ قربانی دینی چاہیے۔
دس دس لاکھ پنشن لینے والے جج صاحبان آسانی سے بجلی اور پٹرول کے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں، اسی طرح سیاستدان اور سول اور ملٹری کے ریٹائرڈ افسران بھی بجلی اور پٹرول کے اخراجات برداشت کرسکتے ہیں اس لیے فوری طور پر ہر کسی کو مفت بجلی اور پٹرول مہیا کرنے کا حکم نامہ منسوح کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری ہونا چاہیے۔
اسی طرح حکومت تاجروں اور دکانداروں کو قائل کررہی ہے کہ وہ بھی حالات کی سنگینی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے قربانی دیں اور پورے یورپ کی طرح غروبِ آفتاب کے ساتھ ہی دکانیں بند کردیا کریں، ایسے کلچرکو ہمارے ہاں بھی فروغ دینے کی سخت ضرورت ہے۔
اس سے صبح گیارہ بارہ بجے اٹھنے اور رات گئے تک جاگنے کا کلچر ختم ہوجائے گا۔ لوگ جلدی سو کر جلدی اٹھا کریں گے اور دفتروں میں وقت پر پہنچا کریں گے۔ اس سے ان کی کارگردگی بھی بہتر ہوگی اور شہریوں کی صحت پر بھی اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔
تاجروں کو نئے اوقات کا پابند بنانے کے لیے بھی عسکری قیادت کو اپنے اخلاص اور عزم کا ثبوت دینا ہوگا۔ بہت سے باخبر حضرات کچھ ریٹائرڈ جنرلز اور ان سویلینز کے نام لیتے ہیں جنھوں نے امریکا، کینیڈا اور آسٹریلیا میں وسیع جائیدایں خرید رکھی ہیں اور ان میں سے بہت سے وہیں رہ رہے ہیں۔
پچھلی بار اس بات پر دکھ کا اظہار کیا گیا تھا کہ اتنے سنگین حالات میں بھی بیوروکریسی کے اللّے تللّے اسی طرح جاری ہیں۔ ملک بچانے کے لیے عسکری ادارے اگر پہل کریں اور مثال پیش کریں تو عدلیہ اور بیوروکریسی یقیناً ان کی تقلید کرے گی۔ آرمی کے کچھ سینئر ریٹائرڈ افسران سے بات ہوئی تو وہ سب اس بات پر متفق تھے کہ ان حالات میں سادگی اختیار کرنا ہوگی۔
ایسی خبر دل پر بجلی بن کر گرتی ہے کہ فلاں جگہ کسی مرد یا عورت نے غربت کے ہاتھوں بچوں سمیت خودکشی کرلی۔ جس علاقے میں ایسا سانحہ رونما ہو وہاں کے ڈپٹی کمشنر کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ اگر اسمبلیاں موجود ہیں تو وہاں کے ممبرانِ اسمبلی کی رکنیت بھی کچھ عرصے کے لیے منسوح کردینی چاہیے۔
ہر علاقے کے منتخب نمایندوں اور انتظامی افسران کا یہ فرض ہے کہ اس چیز کو یقینی بنائیں کہ ان کے علاقے میں کوئی شخص بھوکا نہ سوئے۔ وہ ہر گاؤں اور محلّے کی سطح پر فلاحی کمیٹیاں بنائیں جو زکوٰۃ، خیرات اور عُشر اکٹھا کرکے اپنے محلّے یا گاؤں کے غرباء میں منصفانہ طریقے سے تقسیم کریں۔
یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم ربِّ کائنات کے احکام پر عمل کریں اور پھر بھی اس کی مخلوق میں سے کوئی انسان بھوکا رہ جائے۔ معیشت کی بحالی کے لیے بہت سے کام کیے جاسکتے ہیں، ان پر اگلے کالم میں بات ہوگی۔