اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اس وقت میاں نواز شریف عمر اور تجربے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے سینئر اور تجربہ کار سیاستدان ہیں، ملک میں کوئی ایسا سیاستدان نہیں جو دوسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوا ہو۔
میاں نوازشریف واحد سیاستدان ہیں جو تین مرتبہ وزیراعظم رہ چکے ہیں، وہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ بھی رہے ہیں، اس لیے رموز سلطنت سمجھنے اور امورِ مملکت چلانے کا سب سے زیادہ تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ مسلم لیگ ن کے سربراہ ہی نہیں پارٹی کے سب سے مقبول رہنما بھی ہیں اور پارٹی کا ووٹ بینک انھی کی بدولت ہے۔
انھی کی آشیرباد سے اُن کے بھائی شہباز شریف صاحب ایک لمبے عرصے تک پنجاب کے وزیراعلیٰ رہے اور پھر حال ہی میں وزیرِاعظم کے عہدے پر بھی متمکن رہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ میاں صاحب اقتدار سے بہت لطف اٹھا چکے اور اب وزارت عظمیٰ ان کے لیے ایسی دلکش شے نہیں رہی کہ جس کے لیے وہ بڑے بیتاب ہوں۔ لہٰذا ایسا تجربہ کار اور مقبول رہنما وطن واپس آکر بڑا اہم اور تاریخ ساز کردار ادا کرسکتا ہے، وہ سیاسی کلچر تبدیل کرسکتا ہے۔
ویسے یہ بھی کافی حد تک واضح ہوچکا ہے کہ آیندہ الیکشن کے بعد میاں نوازشریف ہی وزیرِاعظم بنیں گے۔ ملک کی صورتِ حال پرفکرمند رہنے والے اور اس کی بہتری کی خواہش رکھنے والے ایک شہری کی حیثیّت سے میں بھی میاں نواز شریف صاحب کو چند مشورے دوں گا۔ پہلی بات یہ کہ وہ 21 اکتوبر کو سرزمینِ وطن پر ایک Politicianکی حیثیت سے نہیں ایک statesmanکے طور پر قدم رکھیں۔
اس ملک اور قوم نے انھیں اتنا کچھ دیا ہے کہ کسی اور شخص کو اس کا عشرِ عشیر بھی نصیب نہیں ہوا، لہٰذا وہ اب اپنی ذات، خاندان اورپارٹی سے بھی بلند ہوکر سوچیں اور باقی ماندہ زندگی صرف ملک اور قوم کے لیے وقف کردیں۔
وہ چھوٹے ذہن کے لوگوں کے خوشامدانہ مشوروں کو جھٹک کر اپنے لیے کسی کمتر رول کے بجائے اعلیٰ اور ارفع رول کا انتخاب کریں۔ میاں صاحب! اگر آپ کے ایک ہاتھ میں مسلم لیگ کا پرچم ہو تو دوسرے میں قومی پرچم اُٹھالیں اور اپنا وقت، وسائل، صلاحیتیں اور توانائیاں ملک کو سنگین مسائل کی گہری دلدل سے نکالنے کے لیے صرف کردیں۔
وطن عزیز کو اپنوں اور غیروں کے لگائے گئے گھاؤ بہت گہرے ہیں، مسلسل سازشوں اور ٹھوکروں سے جسدِ ملّت کمزور ہوچکا ہے، اسے بڑے قابل اور تجربہ کار طبیب کی ضرورت ہے مگر اب اس کا علاج بیانیوں کے ٹوٹکوں سے نہیں ہوگا۔ اس کے لیے ٹھوس پالیسی اور پروگرام درکار ہوگا، پرانی ریتوں اور روایتوں سے ہٹ کر انقلابی طرزعمل اختیار کرنا ہوگا۔
میاں صاحب! آپ نے حالیہ سالوں میں وطنِ عزیز کی ترقی کا راستہ روکنے اور اسے غیر مستحکم کرنے والے کرداروں کی درست نشاندہی کی ہے، یہ بھی درست ہے کہ ان کا کڑا احتساب ہونا چاہیے مگر اس کے لیے یہ وقت موزوں نہیں۔ بہت اچھا کام بھی غلط وقت پر کیا جائے تو اس کے نتائج نقصان دہ ہوتے ہیں۔
اگر آپ کو آیندہ الیکشن کے ذریعے اقتدار ملتا ہے تو ملک کو دلدل سے نکالنا، اس کی ساکھ اور عزّت بحال کرنا اور مہنگائی میں پسے ہوئے عوام کو ریلیف دینا ہی آپ کی ترجیحِ اوّل ہونا چاہیے، اگر آپ یہ دریا عبور کرنے میں کامیاب ہوگئے اورآپ کی ساکھ قائم ہوگئی تو احتساب کا نعرہ پوری قوم کا نعرہ بن جائے گا اور متعلقہ ادارے خود ان افراد کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
اقتدار میں آکر آپ سیاسی، عسکری اور عدالتی قیادت کے ساتھ گرینڈ ڈائیلاگ کا اہتمام کریں جس میں امورِ مملکت چلانے کے لیے نئے سرے سے رُولز آف گیم طے کیے جائیں۔
معیشت کی بحالی کے لیے آپ ہیومن کیپیٹل، آئی ٹی اور زراعت پر فوکس کریں۔ آپ یقیناً برآمدات بڑھانے پر بھی توّجہ دیں گے۔ پنجاب کے تین شہر گوجرنوالہ، سیالکوٹ اور گجرات گولڈن ٹرائی اینگل کہلاتے ہیں یہاں کے صنعتکار کسی حکومتی امداد کے بغیر اربوں روپے کی مصنوعات برآمد کرتے ہیں اور ملک کو زرِ مبادلہ کما کر دیتے ہیں، ان میں وزیرآباد کو بھی شامل کرلیا جائے جو کٹلری کے میدان میں چین جیسے ترقی یافتہ ملک کے ساتھ بڑی کامیابی سے مقابلہ کر رہا ہے۔
آج جو شخص بھی ملک کے لیے زرِمبادلہ کما کر لاتا ہے وہ ملک کا محسن ہے، اِن چاروں شہروں کے برآمد کنندگان کو ہر قسم کی حکومتی مدد، تعاون اور سہولیات ملنی چاہئیں، حکومت انھیں اپنی برآمدات دوگنی کرنے کا ٹارگٹ دے اور پھر آپ ان پر ہاتھ رکھیں اور اس کے حصول کے لیے انھیں ہر قسم کے incentives دیں۔
تاجروں کوبھی اوقات کارکی پابندی اور ٹیکس دینے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے مگر اس کے لیے پہلے سیاستدانوں اور سول، ملٹری اور عدلیہ کی اعلیٰ قیادت کو سادہ طرزِ زندگی اختیار کرنا ہوگا اور اپنے آپ کو مثال کے طور پر پیش کرنا ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے ہمارے ملک کو ان گنت نعمتوں سے نواز رکھا ہے، زرخیز اور ہموار زرعی زمین اور قیمتی معدنیات کے علاوہ ہمارے پاس ایک ایسی دولت ہے جو دنیا میں بہت کم ملکوں کے پاس ہے اور وہ ہے Human Capital. اگر ہم اپنے نوجوانوں کو عالمی مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق ہنر فراہم کرسکیں تو یہ سرمایہ ملک کے لیے تیل اور سونے سے بڑا خزانہ ثابت ہوسکتا ہے۔
ہمسایہ ملک نے ٹیکنیکل ٹریننگ کی اہمیّت کا بہت پہلے احساس کرلیا تھا لہٰذا آزادی کے بعد پہلی دہائی میں ہی وہاں امریکا کی شہرۂ آفاق یونیورسٹی ایم آئی ٹی کی طرز پر آئی آئی ٹی قائم کیا گیا۔ اب اس طرح کے سات ادارے قائم ہوچکے ہیں جن کے فارغ التحصیل طلباء اب انفارمیشن ٹیکنالوجی کی نوّے فیصد معروف ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اہم ترین عہدوں پر قابض ہوچکے ہیں۔
مختلف اوقات میں مختلف حکومتوں کی توجہ اس جانب مبذول کراتا رہا ہوں لیکن عمل ندارد۔ اگر نوازشریف صاحب پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے نام سے کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں تین ادارے قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ مستقبل میں ان کا موٹرویز سے بھی بڑا کارنامہ سمجھا جائے گا۔
راقم نوجوانوں کی Skill Developmentکے مرکزی محکمے کا تین سال تک سربراہ رہا، جس میں مجھے اس کی اہمیّت اور پوٹینشل کا اندازہ ہوا، اُس وقت چین کی مدد سے تیانجن انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی طرز پر اور ترکی کے تعاون سے Culnary Arts میں عالمی معیار کے دو ادارے اسلام آباد میں قائم ہونے جارہے تھے۔ اگر ہم اپنے ہیومن ریسورسس کو marketable skills فراہم کردیں تو ہمارے یہ ہنر مند نوجوان معاشی انقلاب لے آئیں گے اور ہماری اکانومی نہ صرف پاؤں پر کھڑی ہوجائے گی بلکہ معیّشت کا پہیّہ دوڑنے لگے گا۔
آئی ٹی اور ہیومن ریسورسس کے ساتھ ساتھ زرعی شعبے میں انقلاب برپا کرنا بھی آپ کی اوّلین ترجیح ہونی چاہیے۔
بجلی، تیل اور ڈیزل بہت مہنگے ہوچکے ہیں، کھاد کی گرانی اور کمیابی اور معیاری بیچ کی عدم دستیابی بڑے مسائل ہیں جو حکومت کی توجہ سے حل ہوسکتے ہیں۔ فصل کی بوائی کے وقت معیاری بیج اور کھاد اَرزاں نرخوں پر دستیاب ہونے چاہیئیں۔ اس ضمن میں حکومت کاشتکاروں کو ہمسایہ ملک کی طرح امداد فراہم کرے۔ نیز میاں صاحب اعلان کریں کہ قابل کاشت رقبے پر ہاؤسنگ کالونیاں تعمیر کرنا جرم قرار دیا جائے گا۔
پچھلے کچھ سالوں سے پوری قوم خصوصاً نوجوان بڑی تیزی سے اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوئے ہیں، ان میں بداخلاقی، بدزبانی، بدتہذیبی اور بڑوں کے ساتھ بدتمیزی کا رجحان بڑھا ہے۔ قوم کی اخلاقی تربیّت کرنا اور نئی نسل کو اپنی دینی اور تہذیبی اقدار کی جانب موڑنا آپ کی ترجیحِ اوّل ہونی چاہیے۔ اس جہاد میں والدین، اساتذہ، میڈیا، علماء اور ملک کے دانشوروں اور رائٹرز کو شامل کرنا ہوگا، اسلامی نظریۂ حیات اور اخلاقی اقدار کو طلباوطالبات کی شخصیت کا لازمی حصہ بناکر ہی یہ ٹارگٹ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
آخری بات (Last but not the least) بڑی تشویشناک ہے کہ مسلم لیگ ن نے اپنی نظریاتی شناخت کھودی ہے۔ مسلم لیگ کے کچھ لیڈر احساسِ کمتری کی وجہ سے اور کچھ مغرب کو خوش کرنے کے لیے اپنے آپ کو سیکولر کہلاتے اور بانیانِ پاکستان کے اسلامی نظریات کا ذکر کرنے سے کتراتے ہیں۔
میں ان سے پوچھتا ہوں کہ تین بار میاں صاحب کی منتخب حکومت کو غیر آئینی طریقے یا سازش کے ذریعے ختم کیا گیا، کیا مغربی طاقتوں نے ایک بار بھی ان سازشوں کو روکنے اور میاں صاحب کی آئینی حکومت بچانے کی کوشش کی؟ ھرگز نہیں بلکہ انھوں نے اس میں حصّہ ضرور ڈالا ہے۔ اگر مسلم لیگ اپنے آپ کو پاکستان کے founding fathers کے وژن سے دور کرے گی اور اسلامی نظریۂ حیات (جو اس ملک کی بنیاد ہے) سے لاتعلق ہونے کی کوشش کرے گی تو اس کی جڑ کٹ جائے گی اور وہ بے سمت اور کمزور ہوکر کسی حریف کا مقابلہ نہیں کرسکے گی۔
وہ جماعت جس کے قائدؒ نے اسلامی نظرئیے کی بنیاد پر ایک الگ وطن کی جنگ لڑی اور جس کے نام کے ساتھ مسلم کا لفظ جڑا ہوا ہے اسے سیکولر بنانے کی کوششیں کامیاب تو نہ ہوسکیں مگر اس سے یہ ہوا کہ پارٹی اپنے نظریاتی تشخص سے محروم ہو کر directionless ہوگئی اور اب بیانیوں کی متلاشی اور محتاج ہے۔
محترم میاں صاحب! جس جماعت کے پاس ایک مضبوط اور توانا نظریہ ہو اُسے بیانیوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ Stetesmen بیانئے نہیں پالیسی اور پروگرام دیتے ہیں۔ بانیٔ پاکستان کا وژن اسلام کے عدل اور سماجی انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام تھا، یہی آپ کا پروگرام اور منشور ہونا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کی Core team اعلیٰ کردار کے باصلاحیّت اور جرأتمند افراد پر مشتمل ہو۔
اس لیے آپ سب سے زیادہ اہمیّت اور عزّت اعلیٰ کردار کو دیں۔ اعلیٰ کردار کے حامل ہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو ذرا سی دھوپ نکلنے پر سائے کی تلاش میں نہیں بھاگتے بلکہ چیلنجز کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے اور مشکل وقت میں اپنے لیڈر کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔