70 Ke Risalay (2)
Abdullah Tariq Sohail81
سب رنگ ڈائجسٹ نے عالمی ادب کے ساتھ ساتھ اردو ادب کا معیاری انتخاب بھی شامل اشاعت کیا۔ عالمی ادب کے بعض شہ پارے تو ایسے تھے کہ مدتوں انہیں فراموش نہیں کیا جا سکا۔ ایک نئی بات یہ بھی کی کہ ہندوستان کے علاقائی ادب کا انتخاب بھی شائع کیا۔ خاص طور سے جنوبی ہند کی زبانوں جیسے ملیالم، کنٹری، تیلگو کی کہانیاں اور یوں پاکستانی قارئین کو پتہ چلا کہ جنوبی ہند کے یہ علاقائی ادیب کس طرح بعض حوالوں سے اردو ادیبوں سے کہیں آگے ہیں۔ پھر ہوا یوں کہ گویا عالمی ادب کا ذخیرہ "نچڑ" کر رہ گیا اور مواد کی تلاش میں وقت ہونے لگی۔ رسالے کی باقاعدہ اشاعت میں تاخیر ہونے لگی، پہلے سہ ماہی ہوا پھر ششماہی اس کے بعد یہ سالانہ مجلہ بن گیا۔ پھر نوبت دو سال کے ناغے کی آ گئی۔ معیار بھی کم ہوتا چلا گیا لیکن سلسلے وار کہانی جو بھارت کی انڈر ورلڈ مافیا کے کرداروں پر مشتمل تھی، اس کی مانگ برقرار رکھی لیکن تابکے آخر بند ہوگیا۔ سب رنگ کی اشاعت کے پہلے سال ہی میں اس کی پیروی میں یکے بعد دیگرے کئی رسالے نکلے۔ سب سے پہلے جاسوسی ڈائجسٹ سیریز کے نام سے ایک کتابی سلسلہ شروع ہوا جو بعد میں باقاعدہ رسالہ بن گیا۔ اس کی ضخامت بھی زیادہ تھی اور اس میں ہیبت ناک ادب کی ہر صنف سے ولایتی اور دیسی کہانیاں شامل ہوتی تھیں، ساتھ ہی ایک جاسوسی ناول بھی دوبارہ شامل ہوتا تھا۔ اس کی بھرپور کامیابی کے بعد ایک پرچہ عمران ڈائجسٹ کے نام سے نکلا۔ کسی حد تک یہ بھی کامیاب پرچہ تھا۔ مسالے وہی سب رنگ اور جاسوسی کے تھے۔ پھر شبستان ڈائجسٹ آیا لیکن بہت ہی ناقص لے آئوٹ اوربھرتی کے مواد کی وجہ سے جلد ہی اندھیروں میں گم ہوگیا۔ اس کے بعد سپنس ڈائجسٹ نکلا۔ یہ بھی بہت بڑھ چڑھ کر کامیاب ہوا۔ الف لیلیٰ ڈائجسٹ اسی سلسلے کی اگلی کڑی تھا۔ اس دوران اسی انداز کو لے کر ایک پرچہ عوامی ڈائجسٹ کے نام سے شروع ہوا۔ اس نے ہیبت ناک ادب میں فحاشی کا ضرورت سے زیادہ تڑکا لگایا اور فیل ہو گیا۔ لگتا ہے، فحاشی کے رسیا قارئین کو اپنے زون میں بھوت پریت کی مداخلت پسند نہیں آئی اور اسی طرح ہیبت ناک مواد پر رہنے والوں کو بھوت پریت کا ننگا ہونا اچھا نہیں لگا۔ یہ پرچہ جلد ہی بند ہو گیا۔ اپنے دور کے معروف صحافی نیر علوی نے اسی انداز میں مشعل ڈائجسٹ نکالا۔ مواد اگرچہ معیاری تھا لیکن عوامی نہ ہونے کی وجہ سے یہ مشعل جلد بجھ گئی۔ کراچی میں ہیبت ناک صحافت کی اس کامیابی نے لاہور والوں کو بھی متوجہ کیا اور کئی پرچوں نے اس دوڑ میں شامل ہونے کی کوشش کی لیکن بات نہ بنی۔ ان میں نیلاب ڈائجسٹ اور عکاس سمیت کئی جریدے شامل تھے۔ سب سے دلچسپ ماجرا ماہانامہ آئینہ والوں نے کیا۔ یہ ایک معروف دینی اور تبلیغی جریدہ تھا اور قارئین کے ایک خاص حلقے میں اسے مقبولیت حاصل تھی۔ یہ بہت عرصے سے شائع ہورہا تھا۔ 70ء یا 1971ء میں سیاسی ہفت روزوں کی بہت مانگ تھی۔ آئینہ کے مالکان نے اسے سیاسی پرچہ بنانے اور جمعیت علماء پاکستان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ یوں یہ پرچہ جے یو پی کے ترجمان کے روپ میں نئے انداز کے ساتھ آیا۔ پہلے پرچے میں جے یو پی کے رہنما خواجہ قمرالدین سیالوی کی پورے صفحے کی تصویر شائع ہوئی لیکن یہ تجربہ کامیاب نہ ہو سکا۔ روایتی قارئین سیاسی زون نہیں رکھتے تھے، وہ پیچھے ہٹ گئے اور نئے قارئین مطلوبہ تعداد میں نہ مل سکے۔ دو تین شماروں کے بعد یہ بندھ ہو گیا۔ لیکن پھر عجوبہ یہ ہوا کہ اس دینی تبلیغی جریدے کے مالکان نے پراسرار اور ڈرائونے ڈائجسٹوں کی گرم بازاری دیکھ کر خود بھی اس مارکیٹ کا حصہ بننے کا فیصلہ کرلیا چنانچہ چند ماہ بعد "آئینہ ڈائجسٹ" کے نام سے ایک نیا پرچہ میدان میں آیا۔ سرورق پر قبرستان، درخت پر بیٹھے الو، قبروں کے اندرگھومتی ہوئی سرکٹی لاش کا منظر تھا۔ اس رسالے کو منجھے ہوئے قلمکار مل سکے نہ اس نے تراجم کا سہارا لیا، اس لیے ناکام ہو گیا۔ تین چار ماہ بعد ہی آئینہ شکست ہو گیا۔ شوقیہ مصنف قارئین فوراً ہی مسترد کر دیتے ہیں۔ خوفناک کہانی کی کامیابی کا راز مصنف کی جادونگار صلاحیت پر ہوتا ہے ورنہ پلاٹ کا تو کچھ ایسا خاص کمال نہیں۔ مثال کے طور پر کامیاب ترین ہارر رائٹر برام سٹوکر کی مشہور کہانی "جج ہائوس" کا پلاٹ دیکھئے۔ ایک جج بہت ظالم تھا، ہر ایک کو پھانسی کی سزا سنا دیتا تھا، پھر خود اسے تختہ دار پر لٹکا دیا تھا۔ وہ اکیلا رہتا تھا۔ جب مر گیا تو اس کے مکان کو تالا لگ گیا۔ لندن سے باہر کا ایک طالب علم پڑھنے کے لیے لندن آیا۔ ہوسٹل میں رہنے کے لیے پیسے نہیں تھے، کسی نے بتایا، فلاں مکان ویران پڑا ہے، جائو وہاں مفت میں رہو۔ طالب علم اس ویران مکان میں جا بسا۔ دیوار پر آنجہانی جج کی تصویر فریم میں لگی تھی۔ آدھی رات کو جب طالب علم سونے کی تیاری کر رہا تھا کہ اس نے دیکھا، جج تصویر سے باہر نکل رہا ہے۔ وہ ڈر کر اپنی جگہ ساکت ہوگیا۔ جج تصویر سے نکلا، پھندا اس کے ہاتھ میں تھا، اس نے سہمے ہوئے طالب علم کی گردن میں پھندا فٹ کیا اور اسے پھانسی دے دی۔ ملاحظہ کیجئے کیسا مضحکہ خیز لگتا ہے لیکن برام سٹوکر کی جادوگری دیکھئے کہ اس کی لکھی کہانی پڑھنے والے اسے تنہائی میں نہیں پڑھ سکتے اور کہانی پڑھنے والوں کو صاف لگتا ہے گویا وہ فریم میں سے قاتل جج کو نکلتے ہوئے خود آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ جیساکہ اوپر درج ہوا، ایسے ڈائجسٹوں کی یہ بہار جو 1971ء میں شروع ہوئی تھی، 77، 76ء کے آتے آتے ختم ہو چکی تھی۔ ان میں سے اکثر بند ہو گئے، باقی نے انداز بدل لیا۔ 1980ء میں ایک بھی ڈائجسٹ، اس طرح کا مخصوص سری ادب چھاپنے والا نہیں رہا تھا۔ یہ تو وہ رجحان تھا جس کا آغاز "انشا عالمی ڈائجسٹ" نے کیا لیکن دوسری طرف اردو ڈائجسٹ کے ماڈل میں چھپنے والے رسالوں کی الگ دنیا تھی۔ (جاری)