70 Ke Risalay (3)
Abdullah Tariq Sohail88
بہت بڑے ادیب مشتاق احمد یوسفی چل بسے۔ مزاح نگاری میں انہوں نے ایسا بلند مقام پایا کہ ان کی زندگی ہی میں اور زمانہ قریب میں نہیں، کئی عشرے پہلے لوگوں نے ان کے عہد مزاح کو عہد یوسفی قرار دے دیا اور اب جو کہا جا رہا ہے کہ مزاح نگاری کا عہد یوسفی ختم ہو گیا تو بالکل برحق ہے۔ مرحوم کی شہرت مزاح نگاری کے طور پر ہوئی لیکن ناسٹا لجیا میں جا کر انہوں نے جو کچھ لکھا مثلاً آب گم میں، وہ لوگوں کو رلانے کے لیے کافی سے زیادہ ہے۔ لوگ مزاح یوسفی کی تحسین کرتے ہیں حالانکہ کرب یوسفی بھی کچھ کم نہیں تھا اتفاق سے ایسا ہی کچھ ماجرا ایک اور بڑے مزاح نگار ضمیر جعفری مرحوم کے ساتھ تھا۔ ان کی کتاب اڑتے ہوئے خاکے پڑھیے کرب ضمیر ہر صفحے سے جھانکتا ہوا ملے گا۔ مشتاق احمد یوسفی کو اپنے تعارف کے لیے کسی سہارے کی ضرورت نہیں تھی لیکن وسیلہ بہرحال کسی نے بننا ہوتا ہے۔ اس سلسلہ تحریر کے حوالے سے یہ بھی اتفاق ہے کہ مرحوم کی تحریروں سے وسیع تر حلقہ قارئین " اردو ڈائجسٹ کے" ذریعے ہو ااور اسی جریدے نے عہد یوسفی مشتہر کیا تھا۔ اردو ڈائجسٹ کی اٹھان حیرت انگیز تھی۔ مقبول ترین جریدے جب پانچ سے لے کر دس ہزار تک اشاعت پاتے تھے اس نے ڈیڑھ لاکھ کے ہندسے کو چھوا اور یہ تب کی بات ہے جب مغربی پاکستان(موجودہ پاکستان) کی آبادی صرف پانچ چھ کروڑ تھی۔ اس کے پیچھے پیچھے فوراً ہی سیارہ ڈائجسٹ آیا جس نے مواد کے انتخاب سے لے کر ترتیب تک، ہر انداز اردو ڈائجسٹ کا اپنایا اور قدم بہ قدم اس کے ساتھ چلنے کی کوشش کی۔ اس نے بھی خوب عروج پایا تاآنکہ 1972ء میں اس کے مالکان نے اس کا سارا انداز تزئین بدل ڈالا اور ساتھ ہی اس کا زوال شروع ہو گیا یہ بات عجیب سی لگتی ہے کہ جب بھی کسی رسالے یا اخبار نے اپنی بنیادی ہئیت تبدیل کی اس کا زوال آ گیا۔ کئی مثالیں ہیں لیکن یہی ماجرا اور روزناموں کا بھی رہا۔ حریت معقول اشاعت کا اخبار تھا۔ 72ء یا 73ء میں اس نے اپنی پیشانی بدل ڈالی اور رنگین طباعت شروع کی زیادہ جاذب نظر ہونے کے باوجود قارئین نے اس انقلاب ہئیت کو قبول نہ کیا اور اخبار نیچے ہی آتا گیا۔ جسارت نے دھماکے کے ساتھ کراچی سے آغاز کیا۔ سال پورا نہیں ہوا تھا کہ انتظامیہ نے اس کی پیشانی اور انداز بدل ڈالا جس کے بعد چراغوں سے روشنی بتدریج جاتی رہی۔ عالمی سطح پر دیکھیے سرورق اور لوح بدلنے کے بعد کروڑوں کی اشاعت رکھنے والا ریڈر ڈائجسٹ اب محض ملینز میں شائع ہوتا ہے۔ سیارہ ڈائجسٹ کے بطن سے حکایت نے جنم لیا۔ عنایت اللہ مرحوم سیارہ ڈائجسٹ کے ایڈیٹر تھے۔ 1971ء یا 1972ء میں اس سے الگ ہو گئے اور اپنا پرچہ نکالا ماڈل وہی تھا اردو ڈائجسٹ والا، البتہ 1965ء کی جنگ کے واقعات کا تناسب زیاہ تھا۔ پرچہ مقبول ہوا لیکن آہستہ آہستہ یہ رسالہ جنگیوقائع نگاری تک محدود ہو گیا اور حلقہ قارئین کو بھی محدود کر دیا۔ ان کی وفات کے ساتھ ہی یہ رسالہ بھی وقت کے صحرا میں گم ہو گیا۔ کراچی میں اردو ڈائجسٹ کے ماڈل کیتقلید حکیم سعید شہید نے کی۔ ان کا طب و صحت کا رسالہ ہمدرد صحت خاصا مقبول جریدہ تھا۔ اصلاً یہ دہلی میں پہلی جنگ عظیم کے بعد ان کے والد گرامی نے جاری کیا تھا اور تب یہ خالصاً طبی جریدہ تھا ایسا کہ صرف ماہرین طب ہی استفادہ کر سکتے تھے لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد حکیم سعید شہید اور ان کے بڑے بھائی مرحوم حکیم عبدالمجید نے اسے عام فہم بنایا اس کا سائز بڑا کر دیا جیسا کہ "ماہ نو" کا ہے عوامی دلچسپی کے مضامین فیچر اور افسانے بھی اس میں شامل کیے اس کی تزئین و آرائش پر غیر معمولی توجہ دی اور سفید کاغذ چھپائی کے لیے استعمال کیا پاکستان بننے کے بعد حکیم سعید کراچی آ گئے اور یہ کراچی سے بھیچھپنے لگا۔ البتہ اس کا سائز چھوٹا ہو گیا اور کاغذ بھی نیوز کا لگنے لگا۔ 1963ء میں حکیم صاحب نے اسے ڈائجسٹ کی شکل دے دی البتہ طب و صحت کا حصہ اتنا ہی رکھا جتنا ہمدرد صحت کی پہلی شکل میں تھا۔ یہ تجربہ کامیاب رہا تو اس کا نام بھی بدل کر ہمدرد صحت ڈائجسٹ ہو گیا۔ انداز تزئین و ترتیب وہی اردو ڈائجسٹ والا تھا صرف اس فرق کے ساتھ کہ رسالے کا کم و بیش چوتھائی حصہ خالصتاً طب و صحت کے لیے مخصوص تھا، پرچے نے مزید مقبولیت حاصل کی تو حکیم صاحب نے اس کے اندر سے صحت کا لفظ ہٹا دیا اور اب یہ ہمدرد ڈائجسٹ ہو گیا اور ہمدرد صحت کو اپنی جگہ بحال کر دیا لیکن پھر حکیم صاحب اس پر وہ توجہ نہ دے سکے جس کا یہ تقاضا کرتا تھا۔ ہمدرد صحت ڈائجسٹ مقبول رسالہ تھا ہمدرد ڈائجسٹ مقبول نہ ہو سکا حتمی طور پر یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ ہمدرد صحت کو بہت بہتر شکل میں بحال کیا گیا تھا۔ بڑے سائز کے بہت اعلیٰ سفید کاغذ پر رنگین چھپائی کے ساتھ، لیکن یہ پہلے جیسی مقبولیت حاصل نہ کر سکا۔ بعدازاں اسے پھر روایتی شکل دے دی گئی اور حکیم شہید کی یہ یادگار آج بھی جاری ہے لیکن بس یادگار ہی ہے عثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں اسی ماڈل کی تقلید میں شیخ ضمیر الدین مرحوم نے ایک رسالہ "نورس ڈائجسٹ" کے نام سے نکالا۔ شیخ صاحب کی فوڈ انڈسٹری تھی جو شربت نورس کے ساتھ حلوے مربے وغیرہ بھی بناتا تھا۔ لیکن انہیں نہ تو کام کا ایڈیٹر مل سکا نہ خوشنویس، چنانچہ چند شماروں کے بعد نورس بے رس ہو گیا۔ فصیح اقبال کوئٹہ سے روزنامہ زمانہ نکالتے تھے۔ ڈائجسٹوں کی کامیابی دیکھ کر انہوں نے اپنے اخبار کا ماہانہ ایڈیشن "زمانہ ڈائجسٹ" کے نام سے نکالنا شروع کیا اخبار کوئٹہ سے لیکن یہ ڈائجسٹ کراچی سے چھپتا تھا۔ انہوں نے معیاری اور متنوع مواد دینے کی کوشش کی۔ طباعت اور کتابت کا معیار بھی بہتر تھا لیکن زیادہ کامیابی نہیں ہوئی اور چند شماروں کے بعد بند ہو گیا۔ ڈائجسٹ نام اتنا مقبول ہوا کہ ہر طرح کے رسالوں نے اپنا سائز بدل کر نام کے ساتھ اس کا لاحقہ لگا لیا۔ مثلاً نفسیات ڈائجسٹ، روحانی ڈائجسٹ، طبی ڈائجسٹ، خواتین ڈائجسٹ، سائنس ڈائجسٹ یہاں تک کہ ادبی ڈائجسٹ ایک ادبی رسالہ " نقش" کراچی سے نکلا کرتا تھا، نیچے بریکٹ میں لکھا ہوتا تھا ادبی ڈائجسٹ۔ ایک ماہنامہ افسانہ تھا اس نے بھی یہ لاحقہ لگا لیا۔ افسانہ ڈائجسٹ کے نام سے کچھ لوگوں کو متوجہ بھی کیا لیکن مدیر صاحب کی کوشش تھی کہ صرف ایسے افسانے شائع کئے جائیں جو ایک صفحے کے بعد پڑھے ہی نہ جا سکیں۔ اور جلدہی یہ فسانہ بھی تمام ہوا۔ 1960ء کی دہائی سے لے کر 1970ء کی دہائی کے وسط تک کا زمانہ ہر طرح کے رسالوں اور جریدوں کا سنہری دور تھا اس زمانے کے سیاسی ہفت روزوں ہی کے نام لکھنے بیٹھیں تو آدھا کالم نذر ہو جائے۔ سب سے زیادہ مقبولیت زندگی، نصرت اور چٹان نے حاصل کی لیکن درجنوں دوسرے سیاسی رسالے بھی تھے جو بے پناہ مقبول تو نہیں تھے پھر بھی کثیر الاشاعت کہلائے جا سکتے تھے۔ پیریا ڈیکل جرنلزم کی یہ بہار اب عشرت رفتہ ہو چکی ہے آج کے دور میں جو جریدے چھپ رہے ہیں وہ دیکھنے کے لائق تو ہیں پڑھنے کے لائق ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ ان کے "ناظرین " کر سکتے ہیں۔ قارئین تو رہے ہی کہاں! یہ ایک چھچھلتی سی نظر اس دور کے صرف ڈائجسٹوں تک تھی علمی مذہبی سیاسی سماجی جریدوں کا قصہ الگ ہے۔