Academic Baat
Abdullah Tariq Sohail75
رمضان کا ایک عشرہ پورا ہوا، دو ا بھی باقی ہیں کہ دسویں روزے کی شام ٹی وی پر خبر چلی کہ کراچی میں عید فیسٹیول کی تیاری عروج پر پہنچ گئی۔ عید فیسٹیول سے مراد وہ خریداری بازار ہے جہاں سے عید پریا اس کے آس پاس 20ارب روپے کی چیزیں خریدی جائیں گی۔ ٹی وی چینلز کی مہربانی سے رمضان پہلے ہی عبادت کا مہینہ کم اور کھانے پینے کا میلہ زیادہ ہے۔ ٹی وی ہی کیا، اخبارات بھی یہی "تعلیم" دینے میں لگے ہیں کہ اس مہینے کیا کچھ کیسے کیسے کھایا جا سکتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ بتانے والی بات یہ نہیں کہ کیا کچھ کھایا جا سکتا ہے بلکہ یہ ہے کہ کیا کچھ کھانے سے چھوٹ سکتا ہے۔ پوری دنیا میں میڈیا پر مترفین کا بالعموم قبضہ ہے، یعنی وہ جو دوسروں کی کمائی پر عیش کرتے ہیں اور کم و بیش سارے چینل انہی مترفین کے لیے ہیں۔ دنیا میں تو خیر مڈل کلاس بھی ہے اور بڑھتی جا رہی ہے، خدا کا شکر ہے کہ غربت ساری دنیا میں کم ہو رہی ہے البتہ پاکستان میں مترفین کا زور سب جگہ سے کہیں زیادہ ہے۔ بھلا ہو پرویز مشرف کا اس نے سائنٹیفک طریقے سے مترفین کو بالادست اور عدد ی طاقت بنایا اور مڈل کلاس کا خاتمہ کر کے غریبوں کی گنتی بڑھائی۔ اس کام کے لیے اس نے پردیس سے ایک ڈکیت کو بلایا، کارپوریٹ ڈکیت اور رفتہ رفتہ سے بات سبک روی پر پہنچی کہ رمضان فوڈ میلے میں بدل گیا۔ عید دولت کے اسراف اور نمائش کا تہوار بن گئی۔ ٭٭٭٭٭آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل درانی کی کتاب کے اقتباسات کا بہت شہرہ ہے۔ کئی لوگوں نے تو پوری کتاب ہی پڑھ لی۔ لیکن ہم جیسوں نے تو وہ چند اقتباسات ہی پہنچے ہیں جو اخبارات یا ٹویٹر پر آئے ہیں۔ مطالبہ ہو رہا ہے کہ موصوف کو سزا دی جائے۔ لیکن سزا سے تو بات دب جائے گی۔ موصوف نے قومی امور اور ریاست کی پالیسی کے بارے میں بہت کچھ اور بہت اہم باتیں کہی ہیں۔ مثلاً جہاد کشمیر، کارگل کی جنگ، لال مسجد، سانحہ ایبٹ آباد، اسامہ پالیسی اور نہ جانے کیا کیا۔ اصل ضرورت تو کمشن بنانے کی ہے کہ جو کہا جھوٹ ہے تو بھی پتہ چلے سچ ہے تو بھی۔ یہی نہیں، کتاب میں پاکستان اور بھارت کے بارے میں شمالی جنوبی کوریا کی تشبیہ استعمال کی گئی ہے اور اتحاد کی توقع بھی دکھائی گئی ہے۔ یعنی یہ تو اکھنڈ بھارت والی بات ہو گئی۔ ایک ٹی وی پر اعجاز اعوان نام کے کوئی ریٹائرڈ جنرل تھے۔ فرمایا یہ مہا بھارت (اکھنڈ بھارت کو موصوف نے یہ نام دیا حالانکہ یہ کچھ اور شے ہے) کی تجویز تو اکیڈیمک بحث ہے اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی۔ موصوف کی اکیڈیمک شناسی قابل داد ہے اکیڈیمی ایوارڈکسی قسم کا بننا تو ہے۔ یہی اکیڈیمک بات کسی نان اکیڈیمک نے کی ہوتی تو خود ہی سوچئے کیا ہوتا۔ ٭٭٭٭٭شمالی جنوبی کوریا کی مثال پاکستان بھارت پر فٹ نہیں بیٹھتی یہ دونوں کوریا تو ایک ملک، ایک قوم ہیں، سرد جنگ کی واحد باقیات یہی بچی رہ گئی ہے اور آخرجلد یا بدیر دونوں کو اکٹھے ہونا ہے، جیسے مشرقی مغربی جرمنی اکٹھے ہو گئے۔ پاکستان بھارت کا معاملہ اور ہے۔ جغرافیائی اور تاریخی طور پر سارا برصغیر ایک ہی کلچر کا علاقہ (کم و بیش) ضرور ہے لیکن مذہب کا بہت بڑا فرق ہے۔ پاکستان کسی سرد جنگ کی وجہ سے نہیں بنا۔ مسلمانوں کو ہندو اکثریت سے بچانے کے لیے بنا۔ یہ الگ بات ہے کہ یہاں "اشرافیہ" کی اکثریت نافذ ہو گئی یعنی آسمان سے گرے، کھجور میں اٹکے، لیکن مذہب کا یہ بہت بڑا فرق اسے کوریا کی مثال سمجھنے سے روکتاہے۔ اکیڈیمک حضرات نے کہاں کی مثال کہاں دے دی۔ مذہب کا فرق نہ ہوتا تو بنگلہ دیش الگ جمہوریہ نہ بنتا۔ پاکستان سے کٹتا تو مغربی بنگال سے جڑ جاتا یا اس پر اپنا حصہ ہونے کا دعویٰ کرتا۔ ٭٭٭٭٭ایک طے شدہ مسئلہ درانی صاحب کی کتاب نے پھر سے الجھا دیا۔ کارگل کی جنگ کے بارے میں نواز شریف کا دعویٰ تھا کہ انہیں کچھ نہیں بتایا گیا۔ مشرف کا کہنا تھا کہ سب کچھ بتا دیا تھا۔ معاملہ طے شدہ یوں ہوا کہ مشرف ٹھہرے بائی ڈیفالٹ صادق و امین اور نواز شریف قرار پائے کہ نہ صادق ہیں نہ امین چنانچہ ہر خاص و عام نے مشرف کی بات سچ مان لی۔ درانی محترم بھی ڈیفالٹ صادق و امین ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ کارگل کے بارے میں نواز شریف کو بہت کم بتایا گیا۔ یہ انگریزی محاورہ ہے، مطلب یہ ہے کہ کچھ نہیں بتایا گیا۔ اب دو صادق و امین حضرات کے بیانات میں تضاد ہے۔ سلجھا ہوا قضیہ پھر سے الجھ جانے پر قوم پریشان ہے۔ کمشن ہی مسئلہ حل کر سکتا ہے۔ یہی نہیں لال مسجد پر بھی صادق و امین درانی کا بیان صادق و امین مشرف سے متضاد ہے۔ مشرف کا فرمان تھا لال مسجد میں کوئی بچی نہیں مری، درانی فرماتے ہیں کہ سینکڑوں ماری گئیں۔ دو صادق و امین یہاں بھی الجھ گئے۔ کمشن ہی یہ گرہ کھول سکتا ہے۔ ٭٭٭٭٭اڑتی اڑتی سی غیر معتبر خبریں ہیں کہ سنجرانی ماڈل کے وسیع تر نفاذ کا منصوبہ فی الحال معرض التوا میں ڈال دیا گیا ہے۔ کچھ تو خیر بدنامی بھی بہت ہوئی لیکن یہ تو ایسی خاص رکاوٹ نہیں ہے کیونکہ عبدنام اگر ہوئے تو کیا "کام" نہ ہو گاکام کو اولیت ہے بدنامیت کو ثانویت ہے لیکن کچھ رکاوٹیں ہیں۔ وسیع تر نفاذ اتنا آسان نہیں لگ رہا جتنا شروع میں سوچا تھا۔ چنانچہ اب (خان صاحب )نے شاہ جی کی ڈیوٹی لگا دی ہے کہ وہ "التوا" کا ماحول بنائیں۔ سفینہ پھر بھی بھنور میں رہے گا"التوا" کے تجربات اچھے نہیں۔ اس بار تو ان کے لیے ماحول بھی سازگار نہیں۔ اور التوا نہیں ہوتا ہے تو الیکشن کرانے ہوں گے جن کی تاریخ بھی 25جولائی ر کھ دی گئی ہے الیکشن منصفانہ کرائے تو بھی بحران اور اگر"شفاف" کرائے تو بھی بحران۔ خان صاحب خوشی خوشی بتاتے ہیں کہ مجھے ہر ایک نے "شفاف" الیکشن کا یقین دلا دیا ہے لیکن حضرت اس راستے میں بہت مشکل ہے۔ شفاف کا معنی وہی سنجرانی ماڈل، جو فی الحال غیر معتبر روایات کے مطابق معرض التوا میں جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ یعنی وہی بات کہ کہابحران کا ڈر ہے، کہابحران تو ہو گا۔ ٭٭٭٭٭سائنسی اور طبی تحقیقات اکثر 90بلکہ 180کے زاویے سے بدلتی رہتی ہیں اب تک تو متفق علیہ کلیہ یہ تھا کہ موٹاپا خطرناک ہے۔ موٹے لوگ جلد مر جاتے ہیں لیکن وی آنا(آسٹریا) میں یورپی سائنس دانوں نے انوکھی تحقیق برآمد کی ہے کہ موٹاپا بیماریوں سے بچائو کرتا ہے اور موٹے افراد زیادہ لمبی عمر پاتے ہیں۔ پتہ نہیں کس حد تک سچ ہے لیکن امریکہ کی حد تک تو سچ ہی لگتی ہے امریکہ میں اکثریت موٹوں کی ہے اور وہاں لوگ سو سال سے پہلے کم ہی مرتے ہیں شاید یہ نئی بات امریکہ کی حد تک سچ، باقی ملکوں کی حد تک نا سچ ہو!