Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Aik Aur Billi Ki Baramdagi

Aik Aur Billi Ki Baramdagi

جماعت اسلامی نے پشاور میں بہت بڑی ریلی نکالی۔ بہت لوگ آئے جو پرجوش بھی تھے۔ ریلی کا نام سمجھ نہیں آیا: کشمیر بچائو ریلی۔ اس سے کیا مراد ہے؟ کیا آزاد کشمیر بچانے کی بات ہو رہی ہے۔ ایسا ہے تو بے فکر رہیے۔ آزاد کشمیر بچا بچایا ہے(کم از کم فی الحال)۔ شیخ رشید کا خطاب سنا ہو گا۔ فرماتے ہیں بھارت نے آزاد کشمیر پر حملہ کیا تو پھر بھارت میں گھاس اگے گی نہ گھنٹیاں بجیں گی۔ اس خبرداری کے بعد بھارت کے آزاد کشمیر پر حملے کا کوئی خدشہ باقی نہیں رہا اور اس سے بڑی بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے بھی یقین دلا دیا ہے۔ بے شک آزاد کشمیر محفوظ ہے۔ ہاں اگر جماعت کی مراد کشمیر بچائو سے مراد مقبوضہ کشمیر بچائو ہے تو پھر معذرت۔ وہاں جو کچھ ہونا تھا ہو چکا۔ معاملات ذمہ دارانہ افہام تفہیم سے طے ہو چکے۔ حکومتی وزیروں کے بیانات پر ذرا سا غورکر لیں، بات سمجھ میں آ جائے گی۔ ان سب بیانات کا مرکزی نکتہ ایک ہی ہے بھارت کشمیریوں کے بنیادی حقوق بحال کرے، ان پر ظلم بند کرے، یہ معاملہ عالمی عدالت بھی لے کر جائیں گے۔ مطلب یہ کہ سارا مسئلہ سمٹ کر اب انسانی حقوق کا ہو گیا ہے۔ وہ بحال ہو جائیں تو کیسا جھگڑا، کہاں کا جھگڑا پھر تو ستے ای خیراں۔ لیکن امارات اوربحرین کی طرف سے نریندر مودی کو اپنے ملک کے سب سے بڑے ایوارڈ دینے پر مایوسی ہوئی ہے۔ سارا واویلا۔ ساری آہ و فغاں، سارے انتباہ پہلے سے طے شدہ اور منظور شدہ ہیں۔ ٭٭٭٭٭لکھا تھا کہ جماعت اسلامی کو پورا پتہ ہے کہ ہوا کیا ہے لیکن وہ لب کھول کر بھانبڑ مچانا نہیں چاہتی۔ اب لگ رہا ہے کہ اشاروں کنائوں کی زبان میں وہ کچھ کچھ بول رہی ہے۔ مثلاً سراج الحق صاحب نے کہا ہے کہ کشمیر پر عمران خان ٹرمپ اور مودی کے جال میں آ گئے، ٹریپ ہو گئے۔ چلئے یہاں تک تو آئے، یہاں تک کو پہنچے اب اس معاملہ بندی کو"ٹریپ" کا نام دے لیں۔ اس میں کم از کم بیان سنسر ہونے کا خطرہ نہیں۔ شیکسپئر نے کہا تھا گلاب کو کسی بھی نام سے پکاریں، وہ گلاب ہی رہے گا حتیٰ کہ اسے "ٹریپ" کہہ دو وہ پھر بھی گلاب ہی رہے گا۔ یہ تو تاریخی اور تاریخ ساز گلاب ہے جو معاملہ بندی کے گلشن میں کھلا ہے۔ ٹریپ کے اس رنگ میں بھنگ کا کچھ اندیشہ کشمیری نوجوانوں کی طرف سے ہے کہ وہ بدستور سڑکوں پر نکلتے رہے۔ کرفیو توڑ کے رہے، کشمیر بنے گا پاکستان اور لے کے رہیں گے آزادی کے نعرے لگاتے رہے تو رنگ کا مشرف بہ بھنگ ہونا یقینی بھی ہو سکتا ہے۔ ٭٭٭٭٭گلاب سے یاد آیا۔ گلاب سنگھ کا ذکر انہوں نے اچھے معنوںمیں نہیں کیا۔ جو خطرناک بات ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ حضور، تبدیلی آ چکی ہے، نیا زمانہ ہے اور اس کا نیا ڈاکٹرائن اب رنجیت سنگھ اور گلاب سنگھ اور اسی قبیل کی دیگر مقدس ہستیوں کا ذکر بصد احترام و عزت لینا لازمی ہے۔ ورنہ ملک دشمنی کا مقدمہ بنتے کیا دیگر لگتی ہے۔ امید ہے مولانا آئندہ احتیاط سے کام لیں گے۔ یہ ان کی پہلی غلطی ہے، معاف کی جاتی ہے۔ ٭٭٭٭٭ٹرمپ کے ثالثی والے تھیلے سے کشمیر کے بعد اب ایک اور بلی برآمد ہونے کی خبر عام ہے۔ کشمیر کی طرح یہ مسئلہ بھی ستر سال پرانا ہے۔ جی وہی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ۔ اب دوسرے کی باری ہے۔ ایک انصاف پسند تجزیہ کار تبدیلی مآب سے ملے اور باہر آتے ہی ٹویٹ جاری فرمایا کہ اب یہ مسئلہ بھی حل کرنے میں تاخیر نہ کی جائے۔ ایک دوسرے راسخ العقیدہ انصاف پسند تجزیہ کار نے تو اپنے پروگرام میں "فضا سازی" کے لئے سوال جواب بھی کر ڈالے۔ کہا جاتا ہے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے ہمارے معاشی بحران کے حل میں مدد ملے گی۔ ارے بھائی اسرائیل تو ہمیں ایک دھیلہ بھی نہیں دے گا۔ الٹا ان سے پائو بھر گوشت کاٹ کر دینے کی فرمائش کر دے گا۔ معاشی بحران تو کیا حل ہو گا۔ لگتا ہے جماعت اسلامی کو جلد ہی "اسرائیل نامنظور" مارچ بھی کرنا پڑے گا لیکن جماعت اسلامی کے نامنظور کرنے سے کیا ہوتا ہے، وہی ہوتا ہے جو منظور"وہاں" ہوتا ہے۔ ٭٭٭٭٭اب سمجھ میں آ رہا ہے کہ ساری اپوزیشن نیز سابق جہادی جماعتوں کی قیادت کو جکڑ بند کرنے کے پیچھے کیا حکمت تھی۔ یوں کہیے کہ جیل خانے بھرنے میں حکومت حق بجانب تھی۔ یہ لوگ اتنی شور بازاری مچاتے کہ تھیلے سے برآمد ہونے والی بلیاں ڈر کر پھر سے تھیلے میں گھس جاتیں، پھر پتہ نہیں دوبارہ باہر آئیں کہ نہ آئیں۔ گویا یہ سب بلیوں کی سہولت کاری کے لئے ہوا ہے۔ ٭٭٭٭٭ایک دلیل یہ بھی دی جا رہی ہے کہ عرب ملکوں نے اسرائیل سے دوستی کر رکھی ہے تو پھر ہم کیوں نہ کریں۔ جوابی دلیل یوں عرض کی جا سکتی ہے کہ جہاں پنا ہو، عرب ملکوں نے تو بھارت سے بھی گہری یاری گانٹھ رکھی ہے۔ پھر ہم کیوں نہ گانٹھیں۔ ٭٭٭٭٭وفاقی وزیر فواد چودھری نے انکشاف کیا ہے کہ اسلامی بلاک کا کوئی وجود نہیں ہے۔ خیر سے پچھلے چند ماہ میں حکمران جماعت کے 21عدد رہنما 121بیانات اس کے دے چکے ہیں کہ سارا اسلامی بلاک خاں صاحب کے پیچھے کھڑا ہے جس کی وجہ خاں صاحب کی مدبرانہ قیادت ہے۔ حیرت ہے، یہ اسلامی بلاک کھڑے کھڑے ہی غائب ہو گیا؟