رواں اور گزراں دو ہفتوں میں تین سے زیادہ اور پانچ سے کم وزیروں مشیروں نے یہ بیان دیا ہے، جسے میڈیا نے نمایاں جگہ دی ہے کہ مہنگائی دوسرے ملکوں سے کم ہے۔ ایک اور اہم وزیر نے فرمایا ہے کہ مہنگائی ساری دنیا میں بڑھی، پاکستان کوئی انوکھا ملک نہیں۔ یہ بیانات سیاسی بھی ہیں اور نفسیاتی بھی۔ نفسیات کے علم میں اسی اذیت پسندی کو SADISM کہا جاتا ہے یعنی کسی کو اذیت دینے یا اذیت میں دیکھ کر مزے لینا۔ حکومت خیر سے دونوں کام کر رہی ہے۔ اذیت دے بھی رہی ہے اور پھر اس کے مزے بھی لے رہی ہے۔ مہنگائی ساری دنیا سے کم ہے کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ البتہ، برسبیل تذکرہ یہ پوچھنے میں مضائقہ نہیں کہ اگر مہنگائی باقی دنیا سے کم ہے تو پھر ماضی کی حکومت میں تو باقی دنیا سے بہت ہی کم ہوئی۔ لیکن عمران خان اور پی ٹی آئی کے جملہ رہنما تب کچھ اور بتایا کرتے تھے۔ بتایا ہی نہیں کرتے تھے، بل جلایا بھی کرتے تھے۔ کیا پتہ تھا، بل جلانے والے حکومت میں آ کر دل جلائیں گے، چولہے بجھائیں گے اور کسی کو نہیں چھوڑوں گا، والے مشہور زمانہ راگ گاتے گاتے کچھ نہیں چھوڑوں گا کا جنگی ترانہ شروع کردیں گے۔
٭جن ملکوں سے مہنگائی اب بھی کم ہے، غالباً ان میں امریکہ اور برطانیہ سرفہرست ہیں۔ ان کی فی کس آمدنی کا حوالہ دینے کا کچھ فائدہ نہیں۔ خطے میں ہماری مسابقت بنگلہ دیش اور بھارت وغیرہ سے ہے۔ پورے برصغیر میں مہنگائی کا تناسب 4 سے 6 فیصد ہے، ماسوائے پاکستان کے جہاں خیر سے یہ ہندسہ 17 کو بھی پار کر چلا ہے جتنی قیمت کسی شے کی نواز دور میں ہوا کرتی تھی، اس سے زیادہ اب وہ ہر ماہ مہنگی ہو جاتی ہے اور چیزوں کو چھوڑیئے، اس کی قیمت سو روپے کلو بڑھی ہے اور اب یہ 235 روپے کلو مل رہی ہے۔ خیر، امریکہ برطانیہ اور فرانس میں یہ ہم سے بھی زیادہ مہنگی ہے۔ ڈالروں میں ملتی ہے۔ خدا کا شکر ہے، ہم پاکستان جیسے سستے ملک میں رہتے ہیں، امریکہ یا برطانیہ میں نہیں۔
٭یہ مت سمجھا جائے کہ حکومتی وزیر یا ترجمان ہم سے ہمیشہ ہی غلط بیانی کرتے ہیں۔ ڈالر سمیت مہنگا ہورہا ہے لیکن یقین کیجئے، بہت سے ملکوں کی نسبت اب بھی سستا ہے۔ ایک صاحب بتا رہے تھے کہ امریکہ میں ایک ڈالر دو ڈالر کا ملتا ہے۔ پاکستان کی خوش نصیبی ہے کہ یہاں ایک ڈالر محض ایک ہی ڈالر میں مل جاتا ہے۔
٭وزیروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستانیوں کی آمدن بڑھ گئی۔ بیروزگاری کے معنے بدلنا پڑیں گے۔ کوئی صاحب نوکری سے جائیں یا ان کا کاروبار ٹھپ ہو جائے تو یوں کہنا چاہیے کہ فلاں صاحب کی آمدنی بڑھ گئی۔ پہلے دو سال تحریک انصاف کی حکومت کے یوں گزرے کہ پچاس لاکھ سے زیادہ لوگ بیروزگار ہو گئے۔ اب ماجرا کچھ اس شکل کا ہے کہ بیروزگاری ایک فیصد سے زیادہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے اور مزید ماجرا کچھ یوں ہے کہ سب سے زیادہ بیروزگاری صوبہ پختونخوا میں بڑھی ہے۔ یہ وہی صوبہ ہے جہاں پی ٹی آئی سات برس سے حکمران ہے اور یہ وہی صوبہ ہے جس کے بارے میں فرمایا تھا کہ وہاں غربت تقریب ختم ہو گئی۔ ملاحظہ ہوں، سرکار کے ادارہ شماریات کے اعداد و شمار۔ اسی مہینے جاری ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مہنگائی 1.1 فیصد کے حساب سے بڑھی۔ پچھلے سال 2018-19ء میں شرح 5.9 فیصد تھی اب 6.9 ہو گئی۔ سب سے زیادہ خیبرپختونخوا میں یعنی 10.3 فیصد ہے۔ سندھ میں سب سے کم یعنی چار فیصد ہے۔ نواز دور میں غالباً یہ شرح پورے ملک میں دو فیصد تھی، پختونخوا میں البتہ اس سے کچھ زیادہ سات سال کی محنت شاقہ سے یہ دس نمبر سے زیادہ کا عدد حاصل ہوا۔
٭اعداد و شمار میں مبالغہ نہیں کرنا چاہیے۔ ایک ٹی وی چینل جو بالعموم پی ٹی آئی کا حامی سمجھا جاتا ہے۔ یہ خبر تشویش کے ساتھ نشر کر رہا تھا کہ لاہور میں عورتوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی شرح تین سو فیصد بڑھ گئی۔ سننے والے ڈر گئے ہوں گے۔ تین سو فیصد بہت بڑا عدد ہے لیکن اصل میں تو کچھ بھی نہیں۔ تین سو فیصد کا مطلب ہے تین گنا، محض اور صرف تین گنا۔ اتنا اضافہ معمولی بات ہے۔ معمولی بات کو مبالغے کا رنگ دینا ٹھیک نہیں، ایک ویب سائٹ پر لکھا تھا، اسلام آباد پنڈی میں ڈکیتی چوری کی وارداتوں میں ہزار فیصد اضافہ حالانکہ اصل اضافہ محض دس گنا ہوگا۔ توبہ ہے۔
٭سال 2019ء مہینہ مئی وزیراعظم نے فرمایا ہے کہ یہ سال مشکل تھا لیکن اب صرف دو اڑھائی مہینے مشکل کے رہ گئے، پھر خوشحالی ہی خوشحالی ہے اس سے پہلے وزیراعظم نے اقتدار سنبھالتے ہوئے فرمایا کہ بس سو دن مشکل کے ہیں، بعدازاں اس مدت میں چھ ماہ کی توسیع کردی۔ خیر، وہ سال گزرا وزیراعظم نے کہا بس یہ سال مشکل ہے۔ اگلا برس خوشحالی کا ہوگا۔ وہ بھی گزر گیا۔ اب 2021ء گزرنے کو ہے تو اطلاع یہ دی گئی ہے کہ بس دو سال مشکل کے ہیں، پھر؟