Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Barbadi Ka Aitraf

Barbadi Ka Aitraf

وزیر اعظم نے الجزیرہ ٹی وی کو بتایا ہے کہ ملک کی حالیہ بدحالی کی وجہ نواز شریف اور بھٹو کے خاندان ہیں، ایسے موقع کے لئے بھی کہا جاتا ہے کہ عیہاں تک تو پہنچے یہاں تک تو آئےاب تک حکومت کے وفاقی اور صوبائی وزراء جن کی تعداد درجنوں میں ہے، وزرائے مملکت جن کی تعداد البتہ خاصی کم ہے اور ترجمانوں اور مشیروں، جن کی تعداد نامعلوم ہے یعنی خاصی سے بھی زیادہ ہے، کی طرف سے قوم کو یہ اطلاع ان گننت بار دی جا چکی ہے کہ بدحال ملک کو خوشحال بنایا جا چکا ہے، معیشت کو بحال کیا جا چکا ہے اور اسے ترقی کی شاہراہ پر ڈالا جا چکا ہے۔

وزیر اعظم نے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے لاشعوری طور پر یہ فقرہ کہہ کر گویا مان لیا کہ ملک بدحال اور بے حال ہے۔ البتہ اس کے ذمہ دار ہم نہیں، نواز شریف اور بھٹو خاندان ہیں۔ یہ بھٹو خاندان والا اضافہ "محل نظر" ہے اس لئے کہ اب تک تباہی کی ساری ذمہ داری شریفوں کی لوٹ مار پر ڈالی جاتی رہی ہے اور قوم کو دسیوں ہزار بار یہ بتایا جا چکا ہوتا ہے کہ نواز شریف نے چوری کر کے لندن میں ایون فیلڈ فلیٹ خریدے جس کی مالیت بروقت خریداری (یعنی 1990ء کے زمانے میں یا آس پاس)سات کروڑ روپے تھی۔

خیر، اس وقت روپے کی قیمت زیادہ تھی۔ میرا کیلکولیٹر تو خراب ہے لیکن پی ٹی آئی اور عمران خاں کے سدابہار کیلکولیٹر کی بات مانی جائے تو تب کے سات کروڑ روپے آج کے تین ہزار ارب روپے کے برابر بنتے ہیں۔ (یہ واضح ہے کہ نواز شریف پر ان فلیٹس کے علاوہ ریاست پاکستان کا کوئی مقدمہ نہیں ہے)

٭نواز شریف کی سات کروڑ برابر تین ہزار ارب روپے کی چوری سے بہت نقصان اس ملک کو پہنچا اور اس کے نتیجے میں ایوب، یحییٰ اور مشرف کے دور میں جو مثالی ترقی ہوئی اور ماورائے مثالی خوشحالی آئی، اس سب پر پانی پھر گیا اور پانی یہاں تک پھرا کہ اب ہر فصل کی پیداوار سپر ہونے کے باوجود درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔ تین سال پہلے کی بات ہے، کوئی بھی فصل بمپر نہیں ہوتی تھی، پھر بھی پاکستان برآمد کرتا تھا۔

اس کی وجہ اسد عمر کی "ڈکشنری" کے مطابق یہ بتائی جاتی ہے کہ ماضی میں ہر شے مصنوعی تھی، چنانچہ یہ "برآمدات" بھی مصنوعی ہیں حتیٰ کہ اس دور کی وافر بجلی بھی مصنوعی تھی اور اس کے چار گنا کم ریٹ بھی مصنوعی تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ اب ہر "شے" اصلی ہے۔ درآمد ہونے والی سپر فصلیں بھی، بجلی کے چار گنا ریٹ بھی، یہاں تک کہ گیس کی وہ قلت بھی اصلی ہے جس کی وجہ سے ہر قسم کی صنعتیں بند اور گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے ہیں۔ حیرت ہے، وزیر اعظم یہ بال الجزیرہ کو بتانا بھول گئے۔

٭اسد عمر کے ذکر سے وزیر اعظم کے مشیر برائے سی پیک خالد منصور کے تازہ انٹرویو ذھن میں آ گیا۔ اسد عمر سمیت حکومت کے تین چار درجن "زعما" یہ بتا چکے ہیں اور بے شمار بار بتا چکے ہیں کہ بجلی اس لئے مہنگی ہے کہ نواز شریف نے فالتو پیدا کر دی، وہ استعمال نہیں ہو رہی لیکن بنے چلی جا رہی ہے اس لئے گھاٹا ہو رہا ہے اور گھاٹے کی وجہ سے بل زیادہ بھیجنا پڑ رہے ہیں۔ لیکن وزیر اعظم کے معاون و مشیر خصوصی خالد منصور نے ایک ٹی وی کو ابھی دو روز پہلے ہی یہ بتایا کہ پاکستان میں ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا نہیں کی گئی۔

تمام پراجیکٹ نیپرا کی منظوری سے اور پالیسی کے مطابق لگے۔ حیرت ہے، یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟ یاد آیا، مسلم لیگ والوں کا کہنا تھا کہ بہت سی بجلی کارخانے خریدتے تھے، اب وہ بند پڑے ہیں تو بجلی فالتو ہو گئی۔ خیر، مسلم لیگ کی بات کا کیا اعتبار، انہوں نے سات کروڑ برابر تین ہزار ارب روپے کے فلیٹ خرید کر ملک کا مستقبل تباہ کر دیا، برباد کر دیا۔ بے حال کر دیا۔ ان کی بات کا اعتبار تو کرنا ہی نہیں چاہیے۔

٭ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک کی تین بڑی مارکیٹوں کی تباہی نے ملک کی اقتصادی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں ان مارکیٹوں میں سٹاک مارکیٹ، زر مارکیٹ (صرافہ)اور شرح مبادلہ کی مارکیٹس شامل ہیں۔ رپورٹ میں ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق حسین کا انٹرویو بھی شامل ہے، انہوں نے کہا کہ حکومت قرضے لینے کے لئے بے تاب ہے، اس لئے بینکاروں کو فائدہ اٹھانے کا موقع مل گیا(ماشاء اللہ شرح سود میں پیہم اضافے نے انہیں موقع نہیں، جائز موقع دیا ہے)۔ اخبار نے رپورٹ تو چھاپ دی، یہ بات چھپایا گیا کہ اس ہمہ گیر اور عدیم النظیر تباہی کی وجہ نواز شریف کے وہ فلیٹ ہیں جو انہوں نے تین عشرے پہلے مبلغ سات کروڑ برابر تین ہزار ارب روپے کی مالیت سے خریدے تھے۔

٭وزیر اعلیٰ پنجاب نے فرمایا ہے کہ حکومت کی کوششوں سے اشیاء کی قیمتیں کم ہو گئی ہیں۔ یعنی چیزیں سستی ہو گئی ہیں۔ آپ نہیں سمجھے، قبلہ دراصل گواٹے مالا یا کمپوچیا یا کسی اور ملک کا ذکر کر رہے ہیں۔ پریشان نہ ہوں۔

٭اسلامی وزرائے خارجہ کانفرنس سے کشمیر کا ذکر غائب ہے۔ یہ شکوہ کچھ اپوزیشن لیڈروں نے کیا ہے۔ پہلے کشمیر غائب ہوا، اب ذکر نہیں تو تعجب کیسا۔ جو شے رہی ہی نہیں، اس کا ذکر ہو نہ ہو کیا فرق پڑتا ہے۔