ایک چھوٹی سی خبر اخبارات میں چھوٹی سی جگہ بھی نہیں پا سکی۔ ایک آدھ اخبار نے البتہ مہربانی کی اور دو تین سطریں لگا ہی دی۔ اخبارات بھی کیا کریں، بڑی بڑی خبریں آ رہی ہیں، زیادہ جگہ انہیں دینا پڑ رہی ہے۔ مثلاً پاکستان دنیا کا سب سے سستا ملک بن گیا۔ یہ خبر اتنی بڑی تھی کہ ایک اخبار نے ایک ہفتے میں دو بار اسے اپنی مرکزی شہ سرخی کے ساتھ چھاپا۔ باقی نے بھی حسب توفیق اسے زیادہ جگہ دی۔ یا پھر یہ کہ معیشت بحال ہو گئی۔ نواز شریف نے تین سو کروڑ چوری کر لئے، بزدار کی زیر قیادت پنجاب ترقی کر رہا ہے وغیرہ۔
خیر، چھوٹی سی خبر یہ تھی کہ کراچی کی بھینس کالونی کے جس طالب علم کو سکول انتظامیہ نے فیس ادا نہ کرنے کی پاداش میں سکول سے نکال دیا تھا، اس نے اسی سکول کے سامنے آلو چھولے کا ٹھیلہ لگا لیا۔ بچے کا باپ بھی ایسا ہی ٹھیلہ لگاتا ہے اور گھر کے دیگر اخراجات سے کٹوتی کر کے فیس ادا کرتا تھا لیکن بجلی کے بلوں نے آدھی آمدن چھین لی تو وہ فیس ادا کرنے سے قاصر ہو گیا اور بچے کا نام خارج ہو گیا۔ بچے نے جس کے بعد ٹھیلہ لگا لیا۔ اب وہ پڑھنے کے بجائے کمائے گا۔ اسی کا نام "کامیاب جوان پروگرام" ہے۔
ابھی وہ بچہ ہے، نوجوان نہیں کہلا سکتا لیکن بچوں کے جوان ہونے میں دن ہی کتنے لگتے ہیں اور جب بچہ پڑھنے کے بجائے کمانے لگے تو جوانی تیز رفتار سے آتی ہے، ایسی برق رفتاری سے کہ لگتا ہے، کبھی جوان ہوا ہی نہیں، عہد طفلی سے چھلانگ لگائی اور سیدھا عہد پیری میں قدم رکھا۔ بہرحال "کامیاب جوان پروگرام" میں ایک نئے جوان کی شمولیت مبارک، سنا ہے، ملک بھر سے بہت سارے بچے پہلے ہی کامیاب جوان پروگرام "جوائن" کر چکے ہیں۔ اسے کہتے ہیں وژن۔
٭وزیر اطلاعات کافی عرصے سے غل مچا رہے تھے کہ معیشت کامیابی سے اوپر جا رہی ہے لیکن انہی کی حکومت میں کچھ عرصہ پہلے تک ایک اہم معاشی عہدے پر فائز رہنے والے شبر زیدی نے ایک دلچسپ صورتحال پیدا کر دی۔ ہمدرد یونیورسٹی میں خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ ہم کچھ بھی کہیں، ہمارا ملک دیوالیہ ہو چکا ہے یعنی کنگلہ دیش بن چکا ہے۔ اس پر میڈیا میں اودھم سا مچ گیا۔ اوپر سے کھچائی ہوئی تو زیدی صاحب نے وضاحتی بیان جاری کیا کہ میرے محض تین فقرے سنائے جا رہے ہیں، میں نے اس تناظر میں کچھ اور بھی کہا تھا۔
اس تصدیق نما تردید کے بجائے وہ اگریہ دوفارمولے اپناتے تو زیادہ ٹھیک رہتا۔ فارمولا نمبر ایک:یہ میری آواز نہیں ہے۔ فارمولا نمبر 2آواز تو میری ہی ہے لیکن فقرے جوڑ کر ایک کلپ بنایا گیا ہے۔ بہرحال، اب تو وہ تردیدی تصدیق یا تصدیقی تردید کر چکے، فارمولا اختیار کرنے کا موقع نکل گیا۔ چلئے کوئی بات نہیں آئندہ خیال رکھیے گا۔
٭بحران یہ ہے کہ گیس مہنگی بھی نہیں مل رہی۔ کچھ دن پہلے حکومت نے دوسری صنعتوں کی گیس یہ کہہ کر بند کر دی تھی کہ برآمدی صنعتوں کو دینی ہے لیکن ہوا یہ کہ برآمدی صنعتوں کو بھی نہیں دی جا رہی۔ یعنی گیس کا اتہ پتہ، یہاں ہے نہ وہاں۔ ایک بے جوڑ سا لطیفہ یاد آ گیا۔ جوڑ لگا سکیں تو لگا لیں، شاید پتہ چل جائے کہ گیس کہاں مل رہی ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ کسی بچے سے پوچھا گیا کہ تمہارا گھر کہاں ہے تو بولا مسجد کے سامنے پھر پوچھا کہ مسجد کہاں ہے تو کہا ہمارے گھر کے سامنے۔ پوچھا دونوں کہاں ہیں تو جواب دیا کہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے۔ گیس کہاں گئی کہ نہ برآمدی صنعتوں کو مل رہی ہے نہ غیر برآمدی کو اور حد یہ ہو گئی کہ گھریلو گیس بھی غائب کر دی گئی۔ حماد اظہر کی حمادی کو داد دی جائے یا اظہری کو۔
٭گیس نہیں مل رہی اور اب تو سلنڈر بھی چار گنا مہنگے ہو گئے۔ مسلم لیگ نے سوال کیا ہے کہ ہم سستی گیس درآمد کرتے تھے تو عمران خان صاحب کا فرمان آتا تھا کہ کرپشن کی گئی، اب کئی گنا مہنگی درآمد کر رہے ہیں اور اسے ایمانداروں کا سودا کہتے ہیں۔ ایمانداروں کے اس سودے کی قیمت عوام کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ عرض ہے کہ ایمانداری شے ہی ایسی ہے کہ قیمت چکانا پڑتی ہے۔ سوال البتہ اتنا اٹھتا ہے کہ قیمت کون چکائے گا تو جواب یہ ہے کہ اس کا فیصلہ "قرعہ" سے ہوتا ہے اور 2014ء میں قرعہ اندازوں نے قرعہ عوام کے نام کا نکالا تھا۔ اس میں حکومت کا کیا قصور، وہ تو خود قرعہ اندازوں کا انتخاب ہے۔
٭ایک مثبت خبر بھی سن لیجیے۔ خبر یہ ہے کہ کئی علاقوں میں کئی گنا زیادہ قیمت پر بھی کھاد نہیں مل رہی اس لئے کسانوں نے بنا کھاد کے ہی گندم کی بوائی کر دی۔ مثبت بات یہ ہے کہ اب "قدرتی"گندم ملے گی کیمیاوی اثرتا والی گندم سے نجات مل جائے گی۔ اس اندیشے کو ایک طرف رکھ دیجیے کہ پیداوار کم ہوئی اور گندم باہر سے منگوانی پڑے گی اس لئے کہ ملک میں بقول حکومت کے ایک کے بعد ایک فصل کی"بمپر" پیداوار ہو رہی ہے پھر بھی درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔ جب ہر شے درآمد کرنے کا "قرعہ" نکلا ہے تو کیا فرق پڑتا ہے اس بات سے کہ فصل بمپر ہوتی ہے یا کم تر۔ ملک اسی طرح ترقی کرتے ہیں اور اسی طرح دنیا کے سستے ترین ملک بنا کرتے ہیں۔