پیپلزپارٹی کے رہنما سعید غنی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کی وجہ سے پاکستان دنیا کے تین مہنگے ترین ممالک میں شامل ہو گیا ہے۔ غنی صاحب اڑھائی تین ماہ پرانی رپورٹ کا حوالہ دے رہے تھے جس میں بتایا گیا تھا کہ برازیل اور ترکی پہلے اور دوسرے نمبر پر ہیں۔ پاکستان کا نمبر تیسرا ہے اور غالباً اسی رپورٹ کے مثبت پہلو سے متاثر ہو کر حکومت نے عوام کو یہ خوشخبری سنائی تھی کہ پاکستان اب بھی دنیا کے کئی ممالک سے سستا ہے۔ بادی النظر میں انہوں نے دو کا ترجمہ کئی سے کیا تھا۔ غنی صاحبنے رپورٹ کا حوالہ تو دے رہا لیکن ایک وفاقی وزیر کا خطاب انہیں بھول گیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مہنگائی ترقی کی علامت ہے۔ یعنی ان تین برسوں میں پاکستان دنیا کا تیسرا ترقی یافتہ ترین ملک بن گیا۔
یہ رپورٹ پرانی ہے۔ پلوں کے نیچے اس دوران ترقی کا بہت پانی بہہ گیا ہے۔ پاکستان میں ترقی کی شرح جسے غلطی ہائے مضامین کے تحت افراط زر لکھا جاتا ہے بیس فیصد کو چھو رہی ہے اور درآمدی معاف کیجئے گا، نو درآمد اطلاعات کے مطابق ترکی میں افراط زر یعنی ترقی کی شرح بیس فیصد سے نیچے آ رہی ہے چنانچہ اغلب ہے کہ پاکستان دنیا کے دو ترقی یافتہ ترین ملکوں میں شامل ہو چکا ہو۔ دیکھ لیجئے، ترقیاتی کام ان تین برسوں میں ایک بھی نہیں ہوا، ملک معجزات کے بل پر دنیا کا دوسرا ترقی یافتہ ترین ملک بن گیا۔
٭ایک وفاقی وزیر نے چھ دن پہلے اطلاع دی تھی کہ مہنگائی چند دنوں میں کم ہو جائے گی۔ کمی کے معنی معکوس کرلیے جائیں تو یہ پیش گوئی چند روز کے دوران بری طرح درست ثابت ہوئی۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق (اور سرکاری رپورٹوں میں ایک دو فیصد کی کمی بیشی تو ہوا ہی کرتی ہے) مہنگائی کی شرح مجموعی طور پر 18.45 فیصد اور کم آمدنی والوں کے لیے 19 اعشاریہ دو فیصد ہو گئی ہے جس روز یہ رپورٹ آئی اسی روز مشیر خزانہ نے خوشخبری سنائی کہ گھبرائیں نہیں، مہنگائی جلد کم ہوگی۔ یہ اطلاع تو وفاقی وزیر کئی دن پہلے دے چکے، مشیر خزانہ کا بیان یوں آنا چاہیے تھا کہ مہنگائی مزید کم ہوئی (اور کم ہو کر 22 فیصد ہو جائے گی۔)
٭سربیا کے سفارت خانے کا ٹویٹ خوب چلا کہ وزیراعظم صاحب ہمیں تین ماہ سے تنخواہ نہیں ملی، خدارا کچھ کریں۔ وزارت خارجہ فوراً بیان جاری کیا کہ سفارت خانے کا کمپیوٹر ہیک ہو گیا ہے، بیان جعلی ہے۔ اخباری نمائندوں نے پاکستانی سفیر سے رابطہ کیا تو انہوں نے کچھ بھی کہنے سے گریز کیا۔ کہتے بھی تو کیا کہتے، یہ کہ کمپیوٹر ہیک نہیں ہوا، ہمارا بیاان اصلی ہے، کمپیوٹر تو وزارت خارجہ کا ہیک ہوا۔ پھر تصدیق ہوگئی کہ واقعی سفارت خانے والوں کو تین ماہ سے تنخواہ نہیں ملی اور اسی روز اور اس سے اگلے روز بنگلہ دیش امریکہ وغیرہ سے بھی اطلاع آ گئی کہ وہاں کے پاکستانی سفارت خانوں کو کئی ماہ سے تنخواہیں ا ور فنڈ نہیں ملے۔ اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ ریکارڈ مال پاکستان کر رہا ہے۔
قرضوں کی رقم کے انبار لگ رہے ہیں، وزیراعظم کہتے ہیں بیرون ملک سے ریکارڈ ترسیلات زر آ رہی ہیں۔ مشیر خزانہ کہتے ہیں کہ ریکارڈ ٹیکس وصولیاں ہوئی ہیں۔ وزیر تجارت کہہ رہے ہیں کہ برآمدات میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اور معیشت کی لہراں بحراں ہو گئی ہیں، وزیر زراعت کہتے ہیں کہ فصلوں کی بمپر پیداوار ہوئی ہے۔ پاکستان میں دولت کا گویا سیلاب آ گیا ہے۔ یہ بتائیے کہ دولت کا سیلاب کن زمینوں کو سیراب کر رہا ہے، قرضوں کی رقوم کہاں جا رہی ہیں، بمپر فصلوں کے باوجود گندم سے لے کر دالوں تک ہر شے درآمد کیوں کی جا رہی ہے؟
٭مشیر خزانہ نے یہ بھی بتانا ضروری سمجھا کہ معیشت ترقی کر رہی ہے۔ پاکستان نے ستر برسوں میں تیس ارب ڈالر اور حالیہ تین برسوں میں بیس ارب ڈالر قرضہ لیا۔ یعنی ستر فیصد برسوں میں جتنی رقم قرض کی گئی اس کا ستر فیصد صرف تین برسوں میں۔ شاید مشیر خزانہ اس نکتے کی تشریح کر رہے تھے۔
٭سفارت خانے کا کمپیوٹر اگر ہیک ہوا ہے تو یہ ہیٹ ٹرک ہے۔ اس سے پہلے ایف بی آر اور نادرا کا ریکارڈ بھی چوری ہو چکا ہے۔ ارے یاد آیا بات ہیٹ ٹرک سے آگے نکل گئی کہ بینکوں کا ریکارڈ بھی تو ہیک ہوا۔ جس کے بعد بینکوں کی انتظامیہ نے بتایا کہ رقم محفوظ ہے، بس خبر ہے، بس آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ پاکستان میں اس سے پہلے اس طرح سرکاری ریکارڈ ہیک نہیں ہوتے تھے۔ شاید یہ بے مثال ترقی کا کولیسٹرول ڈیمج ہو۔ اس برتے پر ای وی ایم مشین بھی منگوائی جا رہی ہیں۔ وہ بھی اربوں روپے کے خرچے سے۔
٭ای وی ایم مشین سے ہفتہ کو جھپنے والی ایک خبر یاد آ گئی۔ خبر میں ہے کہ حکمران جماعت کے اجلاس میں وزیراعظم کو بتایا گیا کہ حالات ایسے ہیں کہ انتخابی مہم چلانا تو دور کی بات ہمارا گھروں سے نکلنا بھی مشکل ہوگا۔ مشکل شاید اس لیے ہوگا کہ یہ ارکان صرف استقبال کے لیے تو تیار ہیں، پرجوش کا تحمل ان میں نہیں ہے۔ ارے بھائی وزیرو اور اسمبلی کے ارکانوں گھبراتے کیوں ہو۔ آپ کو باہر نکلنے یا انتخابی مہم چلانے کی ضرورت ہی کہاں پڑے گی۔ ای وی ایم آخر کس لیے لا ئی جارہی ہے۔