Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Hamare Irtiqa Ki Kahani

Hamare Irtiqa Ki Kahani

یہ خبر ہمارے ارتقا کی کہانی کا عنوان ہے۔ خبر یہ ہے کہ ایف بی آر حکام نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ پانامہ لیکس میں جو 444کیس سامنے آئے تھے، ان میں سے 150کا سراغ ہی نہیں ملا جبکہ باقی میں سے 242زائد المعیاد ہوچکے اس لئے کارروائی نہیں ہو سکتی۔ 46پھر بھی باقی رہ گئے ان کے خلاف کارروائی کا ارادہ نہیں یا ضروری نہیں، حکام نے اس پر کچھ نہیں بتایا۔ کل ملا کے کہانی کا خلاصہ یہ نکلا کہ 444ناموں میں سے ایک کے خلاف بھی کارروائی نہیں ہوئی حالانکہ غل یہی مچا تھا کہ سب کو پکڑیں گے کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ کارروائی اس ایک کے خلاف ہوئی جس کا نام 444میں تھا ہی نہیں ؎وہ "نام" سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھاوہ "نام"ان کو بہت ناگوار گزرا ہے(تھا)اور اس کے خلاف کارروائی اگرچہ بنام پانامہ ہوئی لیکن عملاً بر اقامہ ہوئی۔ اقامہ کا قصہ یہ تھا کہ ملزم نے امارات آمدو رفت کے لئے اقامہ لیا جس کی شرط پوری کرنے کے لئے اس نے بیٹے کی فرم میں ملازمت کی۔ مقصد اقامہ لینا تھا، تنخواہ لینا نہیں چنانچہ تنخواہ نہیں لی۔ ملزم کا خیال تھا کہ جو تنخواہ لی ہی نہیں اس کا اثاثوں کے گوشوارے میں ذکر کرنے کی بھی ضرورت نہیں لیکن ملزم کی بلیک لا ڈکشنری سے لاعلمی خطرناک ثابت ہوئی۔ اس ڈکشنری میں لکھا تھا کہ جو تنخواہ وصول نہ کی جائے وہ بھی اثاثہ ہوا کرتی ہے۔ ملزم تمام عمر کے لئے نااہل پایا۔ پھردو کیس چلے اور بہ ضابطہ پہلے ہی اعلان کیا جا چکا تھا کہ بے گناہی ثابت کرنا ملزم کے ذمے ہے۔ گناہ گاری ثابت کرنا استغاثے کی ذمہ داری نہیں۔ ملزم بے گناہی ثابت نہ کر سکا، استغاثہ گناہ گاری کے ثبوت نہ دے سکا معاملہ شک پر مبنی ہوا جس کا فائدہ ملزم کے بجائے استغاثے کو دیا گیا اور ملزم کو سات سات سال قید کی دو سزائیں دے دی گئیں "شک کا فائدہ ملزم کو " والا قانون یہاں یوٹرن لے گیا۔ پھر ایک ویڈیو آئی سزا سنانے والا کہہ رہا تھا کہ مجھے سزا سنانے پر مجبور کیا گیا ورنہ ملزم بری تھا۔ یہ ویڈیو بھی شک کے فائدے کی نذر ہو گئی بحق استغاثہ۔ ٭٭٭٭٭کہانی بہت لمبی ہے۔ داستان امیر حمزہ سے بھی لمبی۔ بہت سے موڑ آئے بہت سے حالات پیدا ہوئے بہت سے پیدا کئے گئے اور بالآخر ایک کلائمکس جولائی 2018ء کی شام پولنگ کے حتمی نتائج کی صورت میں برآمد ہوا اور پھر ہمارا ارتقا شروع ہوا۔ ارتقا تو دراصل پانامہ لیکس کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا لیکن جولائی کی اس شام کے بعد سے اس ارتقا میں اسراع بھی شامل ہو گیا اس ارتقا کی جھلکیاں کچھ تازہ خبروں کی صورت ملاحظہ فرمائیے:1۔ بلومبرگ کے مطابق پاکستان کے مالیاتی خسارہ نے تین عشروں کا ریکارڈ قائم کر دیا بجٹ کا گیپ 8.9فیصد ہو گیا۔ سال گزشتہ 6.6فیصد تھا۔ گویا اڑھائی کا اضافہ ہوا محاصل کا ہدف بھی حاصل نہیں ہو پا رہا۔ 2۔ بجٹ خسارہ قابو سے باہر ہونے کے باعث وزیر اعظم بتا دیا گیا ہے کہ اب دو ہی آپشن ہیں۔ یا تو ترقیاتی بجٹ پر مزید کٹ لگایا جائے یا مزید ٹیکس عائد کئے جائیں۔ اس خبر میں ترقیاتی بجٹ پر کٹ لگانے کی تجویز تو مہمل ہے بلکہ یوں کہیے کہ شہیدوں سے مذاق ہے کہ ترقیاتی بجٹ کے نام پر اب دھرا ہی کیا ہے۔ خاں صاحب نے آتے ہی اپنا یہ ڈاکٹرائن نافذ کر دیا تھا کہ ترقی ترقیاتی کاموں سے نہیں ہوتی چنانچہ ترقی کے سارے پہیے جام ہو گئے۔ پھر الٹی چال چلنے لگے۔ ہاں دوسری تجویز قابل عمل ہے۔ اگرچہ بے تحاشا اور ریکارڈ ٹیکس لگ چکے لیکن مزید بے تحاشا کی بے تحاشا گنجائش موجود ہے حکومت کا ماٹو ہے ٹیکس لگائو۔ مہد سے لحد تک۔ مہد ہی کو لے لیجیے۔ بچے کی پیدائش پر ٹیکس لگایا جا سکتا ہے۔ پھر جھنڈ اتروائی پر، پھر عقیقے پر، پھر ختنے پر، پھر دودھ کے فیڈر پر اس کی نیپی پر، پولیو کا قطرہ پلوانے پر، اسی طرح دوسری بے شمار مدیں ہیں جن کا تفصیلی خاکہ مونچھوں والی سرکاربنائے گی۔ برسبیل تذکرہ خبر ہے کہ کسی نے مونچھوں والی سرکار کی تقرری چیلنج کر دی ہے لیکن اب کیا فائدہ موصوف کے ذمے جتنا بیڑہ غرق کرنے کا کام لگایا تھا۔ انہوں نے اس سے بڑھ کر غرق کر دیا ہے۔ 3۔ قرضوں اور واجبات میں 110کھرب کا اضافہ ہو گیا، ماشاء اللہ، یہ تین ہیں مزید کی کالم میں گنجائش نہیں اخبارات دیکھ کر خود کھوج لیں اور ساتھ میں ایک سالہ دور ارتقا کے لکھے جانے والے اہم ابواب بھی اکٹھے کر لیں۔ مثلاً آمدنیوں میں 30سے 40فیصد کمی۔ اخراجات میں سو فیصد اضافے دس پندرہ لاکھ باروزگاروں کی بے روزگاری پچاس لاکھ افراد کا خط غربت سے پیچھے لڑھکائو۔ کارخانوں اور پیداواری یونٹوں کی بندش سرمائے کا مزار، سرمایہ کاری کی وفات وغیرہ کے ابواب۔ ان سب کو مرتب کر کے لکھیں ارتقاء کی کہانی حصہ اول۔ باقی چار جلدیں سال بہ سال آئیں گی۔ فہرست کے بعد دیباچے میں اس بریفنگ کو شامل کر دیں جو کالم کاسر ٓاغاز ہے اور انتساب اس کے نام کر دیں جو پاکستانی معیشت کے بننے سنورنے، باغ ارم میں سیل عرم بن کر آیا اور سب کچھ بہا کر لے گیا۔